سیاسی منظرنامہ (1)

 

موجودہ ملکی و سیاسی حالات

✍ 

مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری 

نائب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائمیر اعظم گڈھ


پیش نظر تصویر ان دو افراد (راہل گاندھی و پرینکا گاندھی) کی ہے سیاست جن کے گھر کی لونڈی تھی سیاسی مہارتھی اندرا گاندھی کی گود میں جنہوں نے پرورش پائی جن کے آباؤ اجداد نے اس ملک پر دہائیوں حکمرانی کی اور ان دونوں نے اپنی پارٹی کے عروج کو اپنی نگاہوں سے دیکھا اور بہت کچھ سیکھا پھر وہ وقت بھی آیا کہ زوال نے ایسے قدم چومے کہ ہر صلاحیت ناکارہ ہوکے رہ گئی ملک کی باگ ڈور دھیرے دھیرے ہاتھوں سے پھسلتی چلی گئی 

غیر کانگریسی ہوتے ہوئے بھی مجھے اس سچائی کو قبول کرنے میں کوئی تأمل نہیں کہ ان دونوں کے اندر سیاسی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے موجودہ صورت حال میں حزب اختلاف کا جو کردار انہوں نے اداء کیا وہ لاجواب رہا ہے خصوصا اترپردیش میں پرینکا گاندھی کی کوششیں دیگر سو کالڈ سیکولروں کے سامنے بے مثال رہی لیکن ان سب کے باوجود ہندوستان کی سیاست میں ان کا مستقبل چمک پاتا نظر نہیں آرہا ان کے آباؤ اجداد نے مسلمانوں کے ساتھ جس منافقت کا مظاہرہ کیا اس بوجھ کے ساتھ منزل تک پہونچ پانا بڑا ہی مشکل نظر آرہا ہے مسلمان اپنے تن من دھن کے ساتھ از ابتداء تا زوال ان کے شانہ بشانہ تھا مسلمانوں نے اس پارٹی کیلئے بہت کچھ قربان کیا ان کی منافقت کو دیکھتے رہنے کے باوجود ہمیشہ ان کے ساتھ پوری وفاداری کے ساتھ کھڑا رہا لیکن کب تک....؟

آپ غور کریں تو اسی منافقت کی وجہ سے پہلے ہی کئی پارٹیاں وجود لے چکی تھیں انہوں نے یادؤں کے خلاف یہی کیا سپا کی پیدائش ہوگئی دلتو کے حقوق کو مارا بسپا دلتوں کی پارٹی کے طور پر سامنے آگئی جبکہ اس کے برعکس مسلم رہنماؤں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ مسلمان اس در کا دربان بنا رہے پھر بھی آہستہ آہستہ مسلمان ان سے بیزار ہوتا اور دوری اختیار کرتا چلا گیا نتیجتا چھوٹے چھوٹے ووٹروں کی ٹولیاں بھی سلام کرکے رخصت لیتی نظر آئیں آج عرش چھوڑئے فرش بھی مشکل میں ہے

 کانگریس کی اس حالت سے ان مسیحاؤں کو بھی سبق لینے کی ضرورت ہے جو اس وقت دماغ میں یہ لئے گھوم رہے کہ چند پرسنٹ مسلمانوں کا ووٹ ملے نہ ملے پر اکثریتی طبقہ ناراض نہ ہونے پائے ان کا بھی مستقبل کانگریس جیسا ہونے والا ہے اسلئے کہ جب ووٹوں کی ایک بھاری گٹھری آپ کے ہاتھوں سے پھسلیگی تو چھوٹے چھوٹے ووٹر بھی اپنا راستہ لینگے ماضی قریب میں بسپا نے اس کا تجربہ کر تباہی کو اپنے گلے باندھ لیا ہے مستقبل میں دور دور تک بسپا کا وجود نہیں ملنے والا بہر حال اس پہ بات اگلے موقعہ پر ابھی بات راہل و پرینکا کی چل رہی ہے مجھے لگتا ہے کہ پرکھوں کی غلطیاں اگر انکی راہ میں رکاوٹ نا ہوتیں تو ہندوستان کا سیاسی منظر کچھ اور ہی ہوتا پھر بھی مجھے امید ہیکہ پرینکا گاندھی پرکھوں کی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ایک بہترین سیاسی مہارتھی ثابت ہونگی

اللہ تعالی اس ملک کی باگ ڈور کو انصاف پسند سیاست دانوں کے ہاتھوں پہونچنے کی سبیل پیدا فرمائے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے