ایک کہانی، جو خود کو دوہرا گئی

 

مفتی طارق مسعود کا انجینئر علی مرزا سے گفتگو کے لیے جہلم کا سفر

قریب 121 برس قبل، منٹو پارک، لاہور میں مہر علی شاہ صاحب، مرزا غلام احمد(قادیانی) کا انتظار کررہے تھے۔ 

جس کی وجہ یہ تھی کہ مرزا قادیانی کی طرف سے مناظرے کے بھرپور چیلنجز کیے گئے تھے، جو اب کتابی شکل میں شائع بھی ہوچکے ہیں۔ مرزا غلام احمد کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مہر علی شاہ صاحب، سچ مچ گولڑہ شریف سے لاہور آجائیں گے۔ 

مرزا غلام احمد قادیانی کا چیلنج تھا کہ قرآن کی چالیس آیات کی تفسیر (یا سورہ فاتحہ کی تفسیر) دونوں بادشاہی مسجد میں بیٹھ کر لکھیں گے، جس کے لیے 7 گھنٹے کا وقت مقرر ہوگا، تفسیر کم از کم بیس صفحات پر مشتمل ہو اور عربی زبان میں ہو۔ 

لکھنے کے بعد غیر جانبدار علماء، قرآن پہ حلف لے کر فیصلہ دیں گے، کہ کس کی تفسیر بہتر ہے، اگر مہر علی صاحب کی تفسیر بہتر ہوئی تو مرزا قادیانی اپنی تمام تصانیف کو آگ لگا کر خود کو مردود قرار دیں گے۔ 

مہر علی شاہ صاحب لاہور 25 اگست 1900ء کو شاہی مسجد میں انتظار کرتے رہے۔ 

تقریبا چھ دن تک مرزا غلام احمد کا انتظار کیا؛ لیکن مرزا قادیانی آتے تو کیا، الٹا اشتہار چھپوا دیا کہ مہر علی صاحب مناظرے سے فرار ہوگئے ہیں۔ 

مہر علی صاحب کے مریدین سینکڑوں ہزاروں میں تھے، جن کا ایک جم غفیر شاہی مسجد اور منٹو پارک میں موجود تھا، اور اس جم غفیر کی موجودگی ہی قادیانی کے اشتہار کی تردید کے لیے کافی تھے۔

بہرحال..! چھ دن تک انتظار کے بعد منٹو پارک میں ایک بڑا جلسہ کرکے مہر علی صاحب واپس گولڑہ لوٹ آئے، مرزا قادیانی کے جو معتقدین لاہور میں تھے، ان میں سے اکثر نے مرزا سے کنارہ کشی کرلی۔ 

آج 121 برس بعد، جہلم میں وہی نظارہ دیکھنے کو ملا... 

1- اُس وقت بھی مناظرے کا چیلنج دینے والے "مرزا" تھے، آج بھی "مرزا"نام کے ایک صاحب مناظرے کا چیلنج دے رہے تھے۔

2- اس وقت کے "مرزا" پوری اسلامی جماعت سے اختلاف کر رہے تھے اور اپنی قابلیت پر نازاں تھے، آج کے مرزا بھی امام کعبہ اور چوٹی کے علماء سے مختلف امور پر اختلاف کر رہے تھے، اور اپنے آپ کو سب سے قابل اور مصلح سمجھ رہے تھے۔ 

3- اس وقت کے مرزا بھی، خود چیلنج دینے کے باوجود، ان کے بلاوے پر آنے والے "مہر علی شاہ"صاحب کا سامنا نہ کر سکے، آج کے "مرزا" بھی، چیلنج دے کر بلانے کے باوجود "مفتی طارق مسعود صاحب" کا سامنا نہ کر سکے۔ 

4- اس وقت چیلنج دینے والے مرزا کا طویل انتظار کرنے کے بعد، مہر علی شاہ صاحب نے ایک تقریر کر کے حجت تمام کی اور لوٹ آۓ، آج بھی چلینج دینے والے مرزا کا "مقررہ مدت" تک انتظار کرنے کے بعد، مفتی صاحب نے بھی ایک تقریری ویڈیو عام کرکے حجت تمام کی اور لوٹ آئے۔ 

 فرق صرف اتنا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی عربی میں بیس صفحے لکھنے پر قادر تھے، جبکہ انجینئر علی مرزا عربی میں شاید ایک آدھ لائن بھی بمشکل لکھ پائیں، کیونکہ میری معلومات کے مطابق وہ اِعراب(زبر، زیر) کے بغیر عربی پڑھنے سے بھی قاصر ہیں۔

 انجینئر علی مرزا کی طرف سے جس غیر ذمہ داری اور مضحکہ خیزی کا ثبوت دیا گیا ہے، اس سے "سوا صدی" قبل کے ایک اور "مرزا" کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، اور اہل اسلام کو دلی تسکین کے ساتھ، ایک بار پھر یہ باور کرا دیتی ہے کہ "إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا. (الاسراء:81)"... 

مزید یہ کہ صورت حال اس وقت مزید مزاحیہ ہو جائے گی، جب چند روز بعد موجودہ مرزا جی کی طرف سے عجیب و غریب بہانوں پر مشتمل ویڈیو اپلوڈ ہوگی۔ 

اب مناسب ہے کہ مفتی صاحب سمیت ہر شخص کو چاہیے کہ اب مرزا جی کی نہ کسی بات کا جواب دیا جائے، نہ انہیں سنجیدہ لیا جائے۔ 

 مرزا جی کے معتقدین کی طرف سے جو دفاع جاری ہے، اس کا بھی خاموشی سے بہتر کوئی جواب نہیں۔

نوٹ: تحریر میں موجودہ مرزا جی کو مرزا قادیانی سے کوئی تشبیہ نہیں دی گئی ہے، بلکہ دونوں کی جانب سے اختیار کیے گئے رویے کی مماثلت سے وجود میں آئے واقعے کو تشبیہاً بیان کیا گیا ہے۔


-ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے