اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا ۲۹ واں اور ۳۰ واں فقہی سمینار

 

اسلامی فقہ اکیڈمی کا 29 واں اور 30 واں سیمینار (2021)

اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا ۲۹ واں اور ۳۰ واں فقہی سمینار یاست تلنگانہ کے دار السلطنت اور تاریخی، تہذیبی، علمی اور ادبی شہر حیدر آباد کے مشہور و معروف تحقیقی ادارہ المعہد العالی الاسلامی میں مـؤرخہ ۱ تا ۴؍ اکتوبر ۲۰۲۱ کو منعقد ہوئے، اکیڈمی کا ۲۹ واں فقہی سمینار ۲۰۱۹ کے اواخر میں ہونا تھا لیکن بعض وجوہات اور رکاوٹوں کی وجہ سے منعقد نہیں ہوسکا، اور پھر کورونا کی وجہ سے ۲۰۲۰ میں بھی سمینار کا انعقاد ممکن نہ ہوسکا، اب یہ ۲۰۲۱ کا سال بھی اپنے اختتام کو ہے، لہذا یہ مناسب سمجھا گیا کہ دونوں سمیناروں کو ایک ساتھ منعقد کیا جائے، مختلف اداروں سے رابطہ کے بعد المعہد العالی الاسلامی کے ذمہ داروں نے ہمت کی اور اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے یہاں دونوں سمینار وں کو ایک ساتھ منعقد کرنے کی ہامی بھر لی ، بلا شبہ یہ ادارہ صوری و معنوی ہر لحاظ سے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار کے لئے مناسب تھا، چنانچہ متعینہ تاریخوں میں یہ دونوں سمینار منعقد ہوئے۔

ان دونوں سمیناروں کی کل آٹھ نشستیں ہوئیں، جن میں دو افتتاحی اور اختتامی نشستیں بھی تھیں، اس سمینار کا افتتاحی اجلاس ۲؍اکتوبر کی صبح میں منعقد ہوا، اس افتتاحی اجلاس میں ملک کے اہم اداروں مثلا دار العلوم دیوبند، دار العلوم وقف دیوبند، دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، امارت شرعیہ پٹنہ کے علاوہ ریاستہائے گجرات، مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھراپردیش، جھارکھنڈ، اتر پردیش، بہار، کیرالاسے سے تقریبا ایک سو سے زائد ارباب علم و دانش شریک ہوئے، جن میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی (آن لائن)، حضرت مولانا نعمت اللہ قاسمی، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، حضرت مولانا عتیق احمد بستوی، حضرت مولانا محمد عبید اللہ اسعدی، حضرت مولانا مفتی احمد دیولوی، حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی،  حضرت مولانا مفتی صادق محی الدین نظامی، حضرت مولانا مفتی حبیب اللہ قاسمی، حضرت مولانا ڈاکٹر عبد اللہ جولم، حضرت مولانا ثمیر الدین قاسمی برطانیہ (آن لائن)، اور پروفیسر نجم الحسن (مانو) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

۲۹ ویں سمینار میں چار موضوعات اور ۳۰ ویں سمینار میں دو موضوعات پر بحث و مناقشہ ہوا، اور درج ذیل تجاویز متفقہ طور پر منظور کی گئیں:

تجویز بابت:  خواتین کا محرم کے بغیر سفر

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے انتیسویں فقہی سمینار منعقد ۲۴ تا ۲۶ صفر المظفر۱۴۴۳ھ مطابق ۲ تا ۴؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع ’’ خواتین کا محرم کے بغیر سفر ‘‘ کا ہے ، اس موضوع پر موصول ہونے والے تمام مقالات ، پھر تیار ہونے والا عرض مسئلہ اور اس پر ہونے والے مناقشات کی روشنی میں درج ذیل تجاویز مرتب کی گئیں :

۱-  خواتین کے سفر کے لئے محرم کی شرط کا مدار فتنہ پر ہے خواہ مسافت قصر کے مقدار مسافت ہو یا اس سے کم مسافت ہو ،اس لئے اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو سفر شرعی کی مسافت سے کم کا سفر بھی کسی خاتون کے لئے بغیر محرم کے جائز نہ ہوگا ؛ البتہ نماز کے قصر و اتمام کا مدار مسافت شرعی کے سفرپر ہوگا ۔

۲-  عام حالات میں کوئی عورت سفر شرعی کی مسافت کا سفر تنہا نہ کرے ، اگرچہ بظاہر محفوظ نظام سفر ممکن ہو ؛ البتہ اگر کوئی اہم ضرورت درپیش ہو اور شوہر یا محرم کی رفاقت ممکن نہ ہوتو محفوظ نظام سفر کے ساتھ سفر کی اجازت ہے ۔

۳-  چوںکہ عمرہ اور حج کا سفر طویل ہوتاہے اور کئی دنوں کا ہوتا ہے ، اس پوری مدت میں عورت کو کسی مرد کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے ، جو بغیر شوہر یا محرم کے پوری نہیں ہوسکتی ہے ، شرعی قباحتوں سے بچنا بہت مشکل ہے ، اس لئے بغیر شوہر یا محرم کے محض ثقہ عورتوں کی جماعت کے ساتھ عورتوں کے لئے سفر عمرہ اور حج پر جانا جائز نہ ہوگا --- بوڑھی عورتوں کو تو اور زیادہ کسی مرد کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے ، اس لئے ان کے لئے بھی بغیر محرم کے صرف ثقہ عورتوں کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

۴-  کوئی عورت محرم کے موجود نہ ہونے یا محرم کے اخراجات سفر حج کی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں بھی حج کمیٹی یا حج ٹور کے قافلہ کے ساتھ بغیر محرم کے سفر حج و عمرہ پر نہیں جاسکتی ہے ۔

۵-  البتہ دفعہ :۳ و ۴ میں سفر حج کی جو ممانعت مذکور ہے تو جن مسالک میں محرم و شوہر کے بغیر ثقہ عورتوں کے ساتھ بھی سفر حج کی اجازت ہے ، ان مسالک کے لوگ اپنے مسلک کے مطابق عمل کرسکتے ہیں ۔

تجویز بابت:  سد ذریعہ-- ایک اہم اُصول

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا جدید مسائل کو موضوع بحث بنانے کے ساتھ اُصولی موضوعات کو بھی زیر بحث لاتی ہے ؛ تاکہ ان کی ایسی تنقیح ہوجائے کہ نئے پیش آمدہ مسائل پر ان کی مناسب تطبیق ہوسکے ، اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اکیڈمی نے اپنے ۲۹ ویں فقہی سیمینار منعقدہ ۲۳-۲۴؍ صفر ۱۴۴۳ھ مطابق : ۱-۲؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کا ایک موضوع ’’سد ذریعہ ‘‘ بھی رکھا ہے ۔ مقالہ نویس حضرات کی آراء اور بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل تجاویز طے کی گئیں  :

۱-  وہ اُمور جو بذاتِ خود مباح ہوں لیکن کسی مفسدہ کا باعث بنتے ہوں ان کو ممنوع قرار دینے کا نام ’’ سد ذریعہ ‘‘ ہے ۔

۲-  ’’ سدذریعہ ‘‘ شریعت میں معتبر ہے اور شریعت کے بہت سے احکام اس پر مبنی ہیں ۔

۳-  جن ذرائع کا معصیت تک متعدی ہونا یقینی ہو یا ظن غالب کے درجہ میں ہو وہ ناجائز ہیں، اور ان کی ممانعت پر بھی اتفاق ہے ۔

۴-  جن ذرائع کا حرمت تک متعدی ہونا ظن غالب کے درجہ میں نہ ہو ؛ لیکن بکثرت ہو تو ان سے بھی اجتناب کیا جائے ۔

۵-  جن ذرائع کا معصیت تک متعدی ہونا نادر ہو وہ شرعاً مباح ہیں ۔

۶-  دورِ حاضر کے بہت سے مسائل میں ’’ سد ذریعہ ‘‘ کا اُصول بنیادی کردار ادا کرتا ہے ، علماء اور اربابِ افتاء کو چاہئے کہ آج کے عصری مسائل میں اس سے کام لیں، مثلاً  :

الف  :  تورق منظم کا عدم جواز ۔

ب  :  فحش مناظر دیکھنے کے لئے اینڈ رائڈ موبائل ، ڈی وی ڈی ، وی سی آر اور ایل سی ڈی وغیرہ کے استعمال کا عدم جواز۔

تجویزبابت:  رؤیت ہلال سے متعلق چند اہم مسائل

۱-  پہلی تاریخ کو اُفق پر چاند کے نمودار ہونے کی جگہ کو مطلع کہتے ہیں ، جن جگہوں میں عموماً چاند ایک ہی دن نظر آتا ہے ان کا مطلع شرعاً ایک مانا جائے گا ، اور ایسی دو جگہیں جہاں عموماً چاند ایک دن پہلے یا بعد نظر آتا ہو تو ان کا مطلع شرعاً الگ مانا جائے گا ۔

۲-  جن علاقوں کا مطلع ایک ہے اگر ان کے کسی حصہ میں رؤیت ثابت ہوجائے تو ملک کے دوسرے خطے کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے مقامی قاضی یا ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار کریں ؛ البتہ مقامی قاضی اور ہلال کمیٹی کو چاہئے کہ شرعی ضابطے کے مطابق اطمینان کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں ۔

۳-  بصری رؤیت ممکن ہے یا نہیں ، اورمطلع صاف رہے گایانہیں،اس کو جاننے کے لئے فلکیات و موسمیات کے ماہرین سے مدد لینے میں حرج نہیں ہے ؛ البتہ ثبوت ہلال کا مدار بصری رؤیت پر ہوگا ، فلکیاتی حساب پر نہیں ۔

۴-  اگر ۲۹ تاریخ کو فلکیاتی حساب سے بصری رؤیت ممکن نہ ہو تو شہادت قبول کرنے میں حد درجہ احتیاط لازم ہے ۔

۵-  مطلع کے صاف نہ ہونے سے مرادیہ ہے کہ زمین سے چاند دیکھنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ حائل ہوجائے خواہ وہ ابر ہو یا گرد و غبار یا ماحولیاتی کثافت وغیرہ ۔

۶-  مطلع صاف ہونے کی صورت میں چاند رمضان کا ہو یا عیدین کا، ایک بڑی تعداد کو چاند نظر آنا ضروری ہے۔

۷-  ثبوت ہلال کے لئے موجودہ دور میں اتنا کافی ہے کہ چاند دیکھنے والا معاشرہ میں جھوٹا نہ سمجھا جاتا ہو ، نیزفسق و فجور میں بدنام نہ ہو۔

۸ -  چاند دیکھنے والے کوچاہئے کہ جہاں قاضی رؤیت ہلال کا فیصلہ کرتاہو،وہاںقاضی کے پاس اور جہاں رؤیت ہلال کمیٹی فیصلہ کرتی ہو، وہاں کمیٹی کے پاس جاکر شہادت دے؛ اس لئے کہ چاند کی رؤیت کا اہتمام اور اس کی شہادت بھی عبادت اور کارِ ثواب ہے ۔

۹-  جب قاضی اور رؤیت ہلال کمیٹی تک شہادت نہ پہنچے تو چاند دیکھنے والے پر فوری شہادت دینی ضروری ہے ، بلاعذر اس میں تاخیر درست نہیں ۔

۱۰-  جہاں قاضی یا رؤیت ہلال کمیٹی ثبوت ہلال کا فیصلہ کرتی ہے تو اس حلقہ کے تمام مسلمانوں کے لئے اس پر عمل ضروری ہے ، دیگر علاقوں یا پورے ملک کے مسلمانوں پر وہ اعلان حجت نہیں ہوگا ، جب تک کہ وہاں کے ذمہ دار اعلان نہ کریں ۔

۱۱-  ریڈیو ، ٹیلی ویژن یا دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ قاضی یارؤیت ہلال کمیٹی کے متعینہ الفاظ میں اسی کی طرف نسبت کرکے اعلان ہو تو یہ اعلان معتبر اور واجب العمل ہوگا، خواہ اعلان کرنے والا کوئی بھی ہو ۔

۱۲-  دائمی کثافت والے ملکوں میں ماہرین فلکیات کے حساب کو مدار بنانے کے بجائے ایسے قریبی ممالک کی رؤیت کا اعتبار ہوگا ، جہاں عموماً مطلع معمول کے مطابق رہتا ہو ۔

۱۳-  ملک کے متعدد صوبوں میں رؤیت ہلال کا فیصلہ ہوجائے اور یہ خبر ایسے باوثوق ذرائع سے دوسرے صوبوں تک پہنچ جائے کہ عقلاً جھوٹ کا احتمال باقی نہ رہے تو اس خبر کو استفاضہ کے درجہ میں رکھ کر دوسرے صوبے کے قاضی یاہلال کمیٹی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں ۔

۱۴-  کسی صوبہ و شہر میں عام رؤیت یا مطلق رؤیت کا ثبوت نہ ہونے کی صورت میں جب کہ قریبی مقامات میں رؤیت ہوچکی ہو ، اعلان کا حق قاضی یا ہلال کمیٹی کو حاصل ہے ، ان کے نہ ہونے کی صورت میں یہ حق کسی ایسے عالم و مفتی کو ہوگا جس کی طرف لوگ دینی اُمور میں رُجوع کرتے ہوں ، غیر مجاز لوگوں کی طرف سے کیا جانے والا اعلان معتبر نہ ہوگا ۔

۱۵-  غیر مجاز لوگوں کی طرف سے اعلان کی صورت میں اگر لوگ روزہ توڑ دیتے ہیں تو صرف قضاء لازم ہوگی۔

۱۶-  ایک شہر یا صوبے میں ایک ہی ہلال کمیٹی ہونی چاہئے ، متعدد ہونے کی صورت میں ان کا حتی الامکان باہمی تال میل اور موافقت ضروری ہے ؛ تاکہ اُمت کو انتشار سے بچایا جاسکے ۔

۱۷-  یہ سمینار علما،دینی اورملی تنظیموں اور ملت کی ذمہ دار شخصیتوں سے اپیل کرتاہے کہ رؤیت ہلال کے سلسلے میں وہ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو ملک کے تمام صوبوں میں قائم رؤیت ہلال کمیٹی اور چاند کا اعلان کرنے والے اداروں سے رابطہ کرکے معلومات حاصل کرے اورشرعی اصولوں کی روشنی میں تحقیق کے بعد صوبائی کمیٹیوں اور اداروں کو اعتماد میں لیتے ہوئے ملک گیر سطح پر رویت ہلال کا اعلان کرے۔کوشش کی جائے کہ اس میں تمام مسالک کے نمائندے شامل ہوں؛تاکہ اختلاف وانتشار کی شکل پیدانہ ہو۔

۱۸-  یہ سمینار مدار س اسلامیہ سے اپیل کرتاہے کہ گزشتہ ادوار کی طرح نصاب میں علم ہیئت کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کیاجائے اوراساتذہ وطلبہ کی اس پہلو سے تربیت کیلئے فنی ماہرین کے پروگرام بھی رکھے جائیں۔

تجویز بابت:  باغات میں پھلوں کی خرید وفروخت

۱-  باغ کے پھل کو سال دو سال یا اس سے زائد مدت تک کے لئے پیشگی فروخت کردینے کو ’’ بیع معاومہ ‘‘ اور ’’ بیع سنین ‘‘ کہا جاتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع معاومہ اور بیع سنین سے منع فرمایا ہے ؛ لہٰذا اس طرح کی بیع درست نہیں ہے ۔

۲-  درخت پر پھل سرے سے ظاہر ہی نہیں ہوا ہو تو یہ بیع ناجائز ہے ۔

۳-  درخت پر پھل ظاہر ہوچکا ہے تو اس کی بیع درست ہے ۔

۴-  اگر درخت پر بور ( پھول ) آچکے ہوں تو اس کی بیع بھی درست ہے۔

۵-  باغ کے اکثر درختوں میں پھل آگئے ہوںتو تمام درختوں کے پھلوں کی بیع درست ہے ۔

۶-  دفعہ نمبر :۳،۴،۵ میں اگر باہمی رضامندی سے پھل پکنے تک چھوڑے رکھیں تو بھی وہ پھل خریدار کے لئے حلال ہے ۔

۷-  زمین کے بغیر صرف درختوں کا اجارہ درست نہیں ہے ۔

۸-  البتہ اگر یہ صورت اختیار کی جائے کہ باغ کی زمین کو اس کے درختوں کے ساتھ کرایہ پر لے لیا جائے تو یہ درست ہے ۔

۹-  باغات کی خرید و فروخت میں بہتر یہ ہے کہ پھل جب تک کھانے کے قابل نہ ہوجائے،اس کی بیع نہ کی جائے۔ 

تجویز بابت:  کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے چند اہم مسائل

کورونا وبا کی وجہ سے جہاں دوسرے شعبہ ہائے حیات میں مشکلات پیداہوئیں،وہیں عبادات کے بعض اہم مسائل میں بھی رکاوٹیںپیداہوئیں ،جن میں سے چند کے احکام یہ ہیں:

۱-  کورونا جیسی پابندیوں کے ماحول میں ایک مسجد میں پنج وقتہ اور جمعہ وعیدین کی نماز میں ایک سے زائد جماعت کی اجازت ہوگی ؛ البتہ اس کا خیال رکھا جائے کہ ہر جماعت کا امام الگ ہو اور دوسری جماعت تبدیلی ٔ ہیئت کے ساتھ ہو ۔

۲-  عام حالات میں جب کہ نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو اور ایک مرتبہ میں مسجد کے اندر نہ آسکتے ہوں اور نمازیوں کے مسجد سے باہر نمازادا کرنے میں دشواریاں پیدا ہوتی ہوں تو اس صورت میں توسیع مسجد یا دوسری مسجد کی تعمیر ہونے تک ایک مسجد میں ایک سے زائد جماعت کی گنجائش ہے ۔

۳-  کورونا جیسے وبائی دور میںطبی اورانتظامی ہدایات اورتقاضوں کے مطابق مسجد کی جماعت کے علاوہ متعدد مقامات و مکانات میں نماز جمعہ پڑھنا درست ہے ؛ البتہ مولانا محمد مصطفی عبد القدوس ندوی کو اس رائے سے اتفاق نہیں ہے ۔

۴-  جو لوگ کورونا جیسی پابندیوں کی وجہ سے اپنے گھروں میں نماز ظہر پڑھنا چاہتے ہیں، ان کے لئے جماعت سے بھی پڑھنا درست ہے اور انفراداً بھی ۔

۵-  اگر کورونا پابندیوں کی وجہ سے میت کو غسل دینا یا تیمم کرانا دشوارہو تو فریضۂ غسل ساقط ہوجائے گا اوراس پر نماز جنازہ اداکرنا درست ہوگا۔

۶-  اگر کورونا میت کو کفن مسنون دینا دشوار نہ ہو تو کوَر پر کفن مسنون پہنانا بہتر ہے اور دشواری کی صورت میں کور ہی کفن کے حکم میں ہوگا ۔

۷-  اگر کورونا میت کو نماز جنازہ پڑھے بغیر دفن کردیا گیا ہو تو اس کی قبر پر اس وقت تک نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے جب تک کہ اس کی لاش کے تغیر کا ظن غالب نہ ہو ۔

سوشل میڈیا کے استعمال کے شرعی اُصول و ضوابط

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا تیسواں فقہی سمینار ’’ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد ‘‘ میں ۳-۴؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو منعقد ہوا ، جس میں ایک اہم موضوع ’’ سوشل میڈیا کے استعمال کے شرعی اُصول و ضوابط‘‘ پر بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں  :

۱-  سوشل میڈیا موجودہ دور کی ایک اہم ایجاد ہے ، جس سے منافع اور مفاسد دونوں وابستہ ہیں اور اس وقت یہ  ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔

۲-  دینی ، معلوماتی اور مفید باتوں پر مبنی پیغامات جو معتبر اور مصدقہ ہوں، ان کو آگے بھیجنا درست ہے ۔

۳-  اشیاء میں حکم کا مدار اس چیز کے اصل مقصد پر ہوتا ہے ؛ لہٰذااگرکسی سائٹ کا مقصود فحش اور ناجائز تصویروں کی اشاعت ہو تو اس کے تکنیکی شعبہ میں بھی ملازمت کرناجائز نہیں ہے۔

۴-  سوشل میڈیا پر موجود جومواد اخلاقی اقدار کے استخفاف ، ناجائز اُمور یا ملحدانہ افکار کے فروغ کے لئے ہوں، ان کی اشاعت جائز نہیں ، سوائے اس کے کہ ان کو ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جن کے بارے میں اُمید ہو کہ وہ اس کا رد کریں گے اور دوسروں کو بھی متاثر ہونے سے بچائیں گے ۔

۵-  تعلیمی مقاصد کے لئے موبائل اور سوشل میڈیا کا استعمال درست ہے ، تاہم اس کے ساتھ اخلاقی اور جسمانی نقصانات سے تحفظ کی احتیاطی تدابیر اور ذرائع بھی اختیار کرناضروری ہے ۔

۶-  اسلام کی اشاعت ، دینی معلومات کی فراہمی ، اخلاقی تعلیمات اور جائز معاشی فوائد وغیرہ کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے ؛ لہٰذا اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔

۷-  تجویز کمیٹی اکیڈمی سے اپیل کرتی ہے کہ دارالقضاء سے متعلق آن لائن کارورائی کی تحقیق کے لئے وہ ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دے ، جو تمام پہلوؤں کا احاطہ کرکے مفصل رپورٹ پیش کرے ۔

۸-  اگر آڈیو یا ویڈیو کے مشتملات شرعی اعتبار سے درست ہوں تو ان کوسننے ، دیکھنے اور دوسرے شخص کو بھیجنے پر کمپنی جو پیسہ دیتی ہے ،اس کا لینا جائز ہے ۔

۹-  ویڈیو کی نشر و اشاعت کے لئے ناجائز یا غیر مصدّقہ اشتہارات کو اختیاری طورپر شامل کرنادرست نہیں ہے ۔

۱۰-  آن لائن گیمز عمومی طورپر بہت سے مفاسد پر مشتمل ہوتے ہیں ، اس لئے ان کا کھیلنا اوران کو ذریعہ معاش بنانا درست نہیں ہے ؛ البتہ اگر قمار ، ضیاع وقت و مال اور غیر اخلاقی اقدار جیسے مفاسد نہ ہوں تو اس کے کھیلنے اور انعام حاصل کرنے کی گنجائش ہے ۔

۱۱-  سوشل میڈیا پر بنائے جانے والے گروپ میں صراحتاً یا دلالۃً اجازت کے بغیر کسی کو شامل کرنا شرعاً درست نہیں ہے ۔

۱۲-  جو کتابیں بحق مؤلف یا ناشر محفوظ ہیں ، اس کی اجازت کے بغیر ان کا پی ڈی ایف بناکریاکسی بھی فارمیٹ میںڈیجیٹل کاپی بناکر سوشل میڈیا پر ڈالنا درست نہ ہوگا ۔

۱۳-  سوشل میڈیا کے استعمال میں شرعی و اخلاقی اُمور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور جو اُمور غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہوں، ان سے اجتناب لاز م ہوگا ۔

۱۴-  سوشل میڈیا پر باطل اور گمراہ فرقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر بنائی گئیں بہت سی سائٹس موجود ہیں ؛ لہٰذا شرکاء سیمینار کی نوجوان نسل سے اپیل ہے کہ وہ ایسی سائٹس کے استعمال سے اجتناب کریں اور اس سلسلہ میں اپنے معتمد علماء سے رُجوع کریں ۔

٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے