بلی بائی ایپ اتفاق یا مسلم خواتین کے ساتھ جنسی خواہش کی تکمیل کا منصوبہ ساز عمل

مسلم خاتون کی ہندوؤں کے ذریعے عصمت دری اور ریپ


 ڈیجیٹل چوراہے پر مسلم خواتین کی نیلامی کے لیے بناے گئے، بُلّی بائی ایپ کے پیچھے جن چہروں کی شناخت ہوئی ہے، ان میں ایک اہم نام نیرج بشنوئی کا ہے۔ 

نیرج بشنوئی نامی شخص کے متعلق تفتیش میں جو اہم چیزیں سامنے آئی ہیں، دی پرنٹ نے اس پر ایک آرٹیکل نشر کیا ہے۔ 

اس آرٹیکل میں کئی چیزوں کے ساتھ، ایک قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ نیرج نامی مجرم خود سے بڑی عمر کی مسلم خواتین کے متعلق غیر معمولی خواہشات کا حامل ہے، اور اس کے لیپ ٹاپ میں ایسے مواد ملے ہیں، جو مسلم خواتین کے تعلق سے اس کی منشا اور کردار کو واضح کرتے ہیں، جیسے مسلم خواتین کی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ.. 

اب غور کرنے کی بات یہ ہے، کہ کیا یہ صرف ایک شخص کا معاملہ ہے یا اس گھناؤنی ذہنیت کے حامل کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ 

ظاہر ہے کہ مجرم نیرج بشنوئی فقط 20 سال کا نوجوان ہے، اور اس عمر میں کسی مذہب و دھرم کی تفریق کے بغیر، فقط خواہش کا وجود ہوتا ہے، ایک نئی چاہ اور لذت کے لیے انسان خواہشات تو رکھتا ہے، لیکن اس میں ہندو یا مسلم کی قید نہیں لگاتا، اس لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں، کہ ایک غیر مسلم نوجوان، صرف مسلم خواتین کے متعلق جسمانی چاہت رکھے۔ 

اور صرف یہی ایک معاملہ نہیں ہے، ایک سوشل ایکٹوسٹ کا کہنا ہے، کہ ممبئی کے بازارِ حسن (kamaatipura) میں انہیں سروے کرنے کا موقع ملا، تو سب سے حیران کن جو شے سامنے آئی، وہ یہ کہ اکثر طوائف (سیکس ورکرز) نے اپنے نام مسلم خواتین کے ناموں پر رکھے ہیں، حالانکہ وہ سب غیر مسلم تھیں۔ 

ان سے جب اس کی وجہ پوچھی گئی، تو ان کا کہنا تھا، کہ ہندو حسن پرست، مسلم نام کی عورتوں کے پاس زیادہ آتے ہیں۔ 

 ممکن ہے کہ بعض حضرات کے نزدیک یہ چیز معمولی ہو، لیکن اس کے پیچھے بھی وہی ذہنیت کار فرما ہے، جو "نیرج بشنوئی" کی شکل میں عَلانیہ طور پر اب سامنے آئی ہے۔ 

اسی طرح ایک مثال میرٹھ میں دیکھنے کو ملی تھی، جس میں بریلی کی رہائشی ایک مسلم خاتون، میرٹھ میں کسی ہندو خاندان کے پاس، کسی سرکاری کام کے تعلق سے گئی تھی، اور اس نے اپنے کام کے لیے، بطورِ حفاظت ہندو خاندان کی ایک خاتون سے رابطہ کیا تھا، لیکن موقع پا کر ہندو خاندان کی اسی عورت نے، اپنے قریبی مردوں سے اس کی آبرو ریزی کروائی، اور یہ کہہ کر اس مسلم خاتون کو واپس کیا، کہ "سو گاۓ کا دان(صدقہ) ہو گیا"

 یہ مثال یہ بتانے کے لیے کافی ہے، کہ مسلمانوں کے قتل عام کی طرح، مسلمان خاتون کی عصمت دری بھی ان ظالموں کا مذہبی فرض بن چکا ہے، اور اس فریضے کی ادائیگی کے لیے یہ ظالم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے، کہ بلی بائی ایپ بناتے وقت، مجرموں کو کسی بھی سرکاری کارروائی یا سزا کا اندیشہ نہیں تھا، اسی لیے انہوں نے اس سلسلے میں ادنی احتیاط ملحوظ نہ رکھی، پولیس کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے اسکینڈل میں ہم فقط ٹریکنگ (tracking) کے ذریعے مجرم تک پہنچ گئے، یعنی مجرموں نے بچاؤ کے لیے وی پی این (vpn) تک کا استعمال نہ کیا، دیگر احتیاطیں تو کجا۔

اور دوسری جانب، مجرم "نیرج" کے اس عمل پر ہر جانب سے تنقید اور مذمتیں آنے کے باوجود، عصبیت زدہ غیر مسلم،  بہ بانگِ دہل اور فخریہ لہجے میں اسے اپنا ہیرو کہہ رہے ہیں۔ 

اس تفصیل سے صرف یہ بتانا مقصود ہے، کہ اپنی بہن بیٹیوں کی حفاظت، اپنی عزت کے ساتھ، اپنا ایمانی فریضہ بھی بن چکا ہے، اور اگر ہم نے اس ایمانی فریضے میں ادنی کوتاہی کی، تو تاریخ کے اوراق ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ 


ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے