علماء دیوبند کا جنگِ آزادی کے دوران مشرکین کا ساتھ دینا

 

ایک اعتراض کا جواب

درج ذیل تحریر میں، سوال جواب کے انداز میں مذکورہ مسئلے کو شرعی و تاریخی نقطۂ نظر سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اشکال یہ ہے کہ علماء ہند نے مشرکین کا ساتھ دیا اور اور اہل کتاب سے جہاد کیا، جبکہ مشرکین نسبتاً زیادہ بڑے دشمن ہیں۔ 

سب سے پہلے ہم یہاں "ساتھ دینے" پر گفتگو کر لیتے ہیں۔ 

ایک ہے: کسی مشترکہ جنگ میں ان سے ساتھ لینا اور ان کا ساتھ دینا۔ 

اور دوسرا ہے: حکومت بنانے میں ان کا ساتھ دینا۔

جہاں تک پہلی صورت کی بات ہے، تو یہ غلط نہیں، رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے بھی غیر مسلم و مشرک قبائل سے معاہدے کیے ہیں، اور انہیں جنگی حلیف بنایا ہے، آپ بنو ضمرہ، بنو مدلج اور قبائل جھینہ وغیرہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے پڑھ سکتے ہیں۔ (ابن هشام: السيرة النبوية 1/599، وابن كثير: السيرة النبوية، 2/362، 363)

(ابن سعد: الطبقات الكبرى 1/264)

رہی بات ان کے ساتھ حکومت بنانا، اپنے ساتھ مستقل شریک بنانا.. 

تو امام قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ سے لے کر شیخ الہند رحمہ اللہ تک کسی عالمِ دیوبند کا یہ خیال و نظریہ نہیں تھا۔ 

علماء دیوبند میں شاہ عبد العزیز (دار الحرب کا فتویٰ دینے والے) سے لے کر شیخ الہند تک دو عالم جہادِ آزادی کے متعلق زیادہ مشہور ہوئے، 

ایک: نانوتوی

دوسرے: شیخ الہند 

ان دونوں میں سے پہلے کے سیاسی افکار و نظریات کے متعلق کوئی مستقل و مفصل کتاب نہیں،  (مناظرے سے کسی کو اشکال ہو سکتا ہے، تو مناظرے ان حضرت نے ہندوؤں سے بھی کیے اور آریہ سماجیوں اور عیسائیوں سے بھی...اس لیے مسئلہ برابر ہے)

لہٰذا نانوتوی کے سیاسی افکار کو سمجھنے کے لیے شیخ الہند کو دیکھنا چاہیے، کیوں کہ وہی نانوتوی کے مکمل انقلابی شاگرد اور ان کے علوم و افکار کے وارث ہیں۔ 

شیخ الہند کے نظریات کا بغور جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے، کہ وہ ہندوؤں کو حکومت میں شریک کرنا نہیں چاہتے تھے، اور متحدہ قومیت کے حامی نہیں تھے۔ 

آپ جہادِ آزادی کے حالات پڑھیں، تو معلوم ہوگا کہ 1916-17 تک آزادی ملنے کے بعد کی حکومت کا کسی کو خیال نہیں تھا، حتی کہ اقبال کا نظریہ (دو قومی) 1930 کے بعد سامنے آیا، لیکن شیخ الہند چونکہ 1905 سے سرگرم تھے، اور 1857 کے بعد اب تک کسی میں لب ہلانے کی بھی ہمت نہ ہوئی تھی، کانگریس بھی 1912 میں آزادی (بلکہ نیم آزادی) کا نام لینے کی ہمت کر سکی؛ تو چونکہ شیخ الہند پہلے سے سرگرم تھے، لہٰذا ان کے دماغ میں نظریہ واضح تھا۔ 

جس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ وہ خلافتِ عثمانیہ اور افغانی حکومت سے مدد چاہتے تھے، ان ہی حکومتوں کے پاس انہوں نے وفود بھیجے۔

ہاں، انہوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے وقتی طور پر ہندوؤں کو جنگی و مزاحمتی حلیف بنا لیا تھا، جو کہ غلط نہیں، کیوں کہ اوپر بتایا گیا کہ اسلام میں اس کی مثال موجود ہے۔

باقی.. ان کی مزاحمت کا ایک ہی ہدف تھا، اس اسلامی حکومت کی بحالی، جسے انگریزوں نے ختم کر دیا تھا، اور جس اسلامی حکومت میں ہندو بھی عام رعایا کی طرح رہتے تھے، اور حکومت مسلمانوں کی تھی۔ (تذکرہ شیخ الہند، 52)

اب آگے دیکھتے ہیں کہ 1920 کے بعد لوگوں کو جب انگریزوں کی نرمی و پسپائی اور آزادی کی کچھ کرن نظر آنے لگی، تو انہیں خیال آیا کہ آزادی کے بعد حکومت کس کی ہوگی۔ 

ہندوستان میں خالص اسلامی حکومت پہلے بھی نہ تھی، ہاں، اکثر حصہ مسلمانوں کے زیر نگیں تھا۔ 

اس لحاظ سے: 

نہ خالص اسلامی حکومت قائم ہو سکتی تھی۔ 

نہ خالص ہندو حکومت.. 

اس صورت حال کے نتیجے میں تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔

1- یا تو اسی اہل کتاب حکومت کو برداشت کیا جاتا، ان کا ساتھ دیا جاتا۔ 

2-یا ان کو ہٹا کر مشرک (ہندو) کے ساتھ حکومت بنائی جاتی۔ 

3-یا پھر تقسیم... 

پہلی صورت نہ اپنانے کی وجوہات: 

1-ماضی کے تجربات اور ملکی مصالح کی روشنی میں ہنود، اہل کتاب کے مقابلے زیادہ اس بات کے مستحق تھے کہ ان کے ساتھ حکومت بنائی جاۓ، 

کیوں کہ ہندو اپنی تہذیب و ثقافت کے تھے، ان کے ساتھ مسلمانوں نے صدیاں گذاری تھیں، وہ اور مسلمان اسی سر زمین کے باسی تھے، بہ نسبت انگریز کے... کہ وہ غاصب تھے، ان کی تہذیب و ثقافت، ذہن و مزاج سب الگ تھا۔ 

اگر ہندو اور انگریز دونوں غاصب ہوتے، تو دونوں کو ایک درجے میں رکھ کر یہ سوچا جا سکتا تھا کہ اہل کتاب کا انتخاب کرنا چاہیے۔

لیکن یہاں تو دو ایسی اقوام ہیں، جن میں سے ایک کے ساتھ رہنے کا صدیوں پرانا تجربہ ہے، وہ اسی زمین کی باسی ہے، اور دوسرے غاصب... 

نیز انگریزوں کی جانب سے ظلم و ستم کا جو تلخ تجربہ ہوا تھا، وہ ہندوؤں کی جانب سے کبھی نہ ہوا تھا۔ 

لہذا اعتبارات کا فرق ہوا، اور اعتبار کے فرق سے حکم بدل جاتا ہے۔ 

جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی ضمرہ سے صرف اس لیے معاہدہ کر لیا تھا، کہ وہ نواح مدینہ میں رہتے تھے، اسی زمین کا حصہ تھے، اور کفار مکہ سے معاہدہ نہ کیا، کہ وہ الگ شہر کے تھے، اور ان(بنو ضمرہ) کی جانب سے اس قسم کی مخالفت، ظلم و تشدد دیکھنے میں نہ آیا تھا، جو کفار مکہ کی جانب سے مسلمان دیکھ چکے تھے۔

2- 1800 کے بعد کے صنعتی و فکری انقلاب نے یورپ میں مذہب کو نیم مردہ کر دیا تھا، یورپین کے آباء و اجداد تو عیسائی تھے، لیکن 1800 کے بعد کے اکثر عیسائیوں کے ذہن و دماغ نے مذہب سے نجات پالی تھی، اور ان کا سارا ایمان مادے پر رہ گیا تھا، الحاد ان کے اندر اس قدر تیزی سے پھیلا کے 1900 آتے آتے مذہب، یورپ میں اجنبی ہو گیا، اس کے لیے آپ تنقیحات (مودودی) اسلام اور سیاسی نظریات (تقی عثمانی) اور لبرل ازم اور اسلام (غلام نبی کشمیری) دیکھیں۔ 

اسی لیے ہمارے بعض علماء کو یہ فتویٰ دینا پڑا کہ پہلے جس طرح اہل کتاب کا ذبیحہ جائز تھا، اور ان کی عورتوں سے نکاح درست تھا، اب یہ دونوں چیزیں یورپین عیسائیوں کے حق میں جائز نہیں رہ گئیں۔ (معارف القرآن، جلد 3، صفحہ 48) 

بہرحال..! جب وہ یا ان کی اکثریت عیسائی نہیں رہ گئی، تو ہم انہیں اہل کتاب کیوں مانیں.. 

جب اہل کتاب نہیں مانتے، تو اہل کتاب کا سا معاملہ کیوں کریں۔ 

اس صورت میں تو ایک جانب ایک ایسی قوم ہے، جو خدا کی منکر اور دہریہ ہے، اور دوسری جانب ایسی قوم، جو مسلم تو نہیں، لیکن خدا کے وجود پر ایمان رکھتی ہے، اس صورت میں خدا کے وجود پر ایمان رکھنے والی افضل ہوئی۔ 

3- اسلام کے مقابلے میں عیسائیت ایک ایسی قوم ہے، جو دنیا سے اسلام کا نام مٹا دینا چاہتی تھی، اسے اسلام کا عالمی طاقت ہونا برداشت نہیں تھا، کیوں کہ اسلام نے ہی اس سے عالمی اقتدار چھینا تھا، اور آئندہ بھی وہی چھین سکتا تھا، یعنی یہ دو سپر پاور کی جنگ تھی، جس میں ایک دوسرے کو مکمل ختم کر دینا یا محکوم بنا لینا چاہتا تھا۔ 

اور دوسری جانب ہندو، ایک عام اور کمتر قوم، جس کی اسلام کے مقابلے کوئی حیثیت نہیں، جو مذہبی رو سے اس قدر پست تھے، کہ اسلام کے مقابلے خود کو بے دلیل و سند سمجھتے اور جوق در جوق اسلام قبول کرتے تھے، اسی لیے انہوں نے بیشتر اسلامی روایات کو اپنا لیا تھا۔ (اس کے لیے عاطف سہیل صدیقی کی تازہ پوسٹ دیکھیں

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10227175127788002&id=1351971311) 

بہرحال..! ایک مقابل اور ہم پلہ قوم، جو اسلام کو مٹا دینا چاہتی تھی، دوسری پست و کمتر، جو صدیوں اسلام کے ساۓ تلے رہ چکی تھی، لہذا اصل مقابل و دشمن کو چھوڑ دیا گیا، اور صدیوں سے ذمی بن کر رہنے والی کمتر قوم کر حلیف بنا لیا گیا، کیوں کہ پہلی والی سے خطرات زیادہ تھے۔ 

دو آپشن میں سے ایک کی ترجیح واضح ہوگئی، تیسرا آپشن بچا، یعنی تقسیم والا... 

اس کو چھوڑنے کی وجوہات بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ اس کے نقصانات، تقسیم کے فقط دو دہائیوں بعد واضح ہونے شروع ہوگئے تھے۔

ابن مالک ایوبی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے