مدتوں رویا کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مدتوں رویا کریں گے

عبید اللہ شمیم قاسمی العین

علوم قاسمی کے امین دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث کے صدر نشین استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حضرت مولانا  مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری جنہیں ابھی تک "دامت برکاتہم" کہا کرتے تھے مگر اب انہیں "رحمہ اللہ" لکھنا پڑ رہا ہے، رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مختصر عرصہ بیمار رہنے کے بعد 25 رمضان المبارک( متحدہ عرب امارات میں 26 رمضان المبارک) مطابق 19 مئی 2020ء کو چاشت کے وقت خالق حقیقی سے جا ملے، اور ممبئی میں تدفین عمل میں آئی،إنا لله وإنا إليه راجعون۔ 
کل شام جب سے حضرت مفتی صاحب کی طبیعت کے بارے میں مختلف ذرائع سے خبریں سننے میں آرہی تھیں دل میں بار بار تشویش پیدا ہو رہی تھی، اس سے پہلے حضرت مفتی صاحب جب بھی بیمار ہوتے تھے دل کو یک گونہ اطمینان رہتا تھا کہ انشاءاللہ ٹھیک ہو جائیں گے، مگر جب وقت موعود آجاتا ہے تو اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہو سکتی، ارشاد باری تعالی ہے: 《فإذا جاء أجلهم لا يستاخرون ساعة ولا يستقدمون》
جب سے حضرت مفتی صاحب کے انتقال کی خبر پہنچی ہے بہت کوشش کررہا ہوں کہ دو چار سطریں  کچھ لکھوں مگر قلم ساتھ نہیں دے رہا ہے، دل مغموم ہے، آنکھیں نم ہیں، بہت ضبط اور کوشش کے بعد چند سطریں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ 
حضرت مفتی صاحب اللہ تعالی کے ان خوش نصیب بندوں میں سے تھے جنہیں نصف صدی سے زائد عرصہ حدیث شریف کی  تدریس کا موقع ملا،  1393ھ میں دارالعلوم دیوبند میں تقرری سے قبل جامعہ حسینیہ راندیر میں حضرت مفتی صاحب نے تقریبا 10 سال تدریسی خدمت انجام دی تھی، دار العلوم دیوبند  میں 48 سال آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں، اس عرصہ میں ہزارہا طالبان علوم نبوت کو آپ کے علوم سے سیراب ہونے کا موقع ملا۔
اللہ رب العزت نے حضرت مفتی صاحب کو محبوبیت عطا فرمائی تھی، آپ کا درس طلبہ دارالعلوم دیوبند میں بہت مقبول تھا۔ ہم نے حضرت مفتی صاحب سے ١٤٢٢-٢٣ھ میں ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف پڑھی تھی،
اللہ تعالی نے حضرت مفتی صاحب کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا بہت صاف ستھرا ذوق عطا فرمایا تھا، آپ کے اندر افہام و تفہیم کا ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا تھا، اسی وجہ سے آپ کے درس کے ساتھ ساتھ آپ کی کتابیں بھی بہت مقبول تھیں، اللہ تعالی نے آپ کے اندر انتطامی امور کی صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی۔ آپ کا نورانی چہرہ، آپ کے درس کا انداز،  راستے میں ملاقات پر سلام میں سبقت، آپ کی متانت وسنجیدگی یہ سب باتیں بہت یاد آرہی ہیں مگر اس وقت کچھ بھی لکھنا مشکل ہو رہا ہے،  
زمانہ طالب علمی میں تو ہم جیسے ادنی طالب علم کا حضرت مفتی صاحب سے کوئی ربط نہیں تھا بس آپ کے سبق تیسرے گھنٹہ اور مغرب بعد درس میں پہنچنے کی کوشش ہوتی کہ کوئی بھی سبق ناغہ نہ ہو الحمد للہ اس میں کامیاب بھی رہتے، ہمارے سال میں ششماھی امتحان میں جن طلبہ کے ترمذی شریف میں 44 سے زائد نمبرات تھے مفتی صاحب نے ان کو حجة الله البالغة کی شرح رھمة الله الواسعة  کی تیسری جلد بطور انعام کے دی تھی، الحمد للہ اس میں بندہ کا بھی نام تھا اسی طرح ہمارے سال میں اسمائے حسنی یاد کرانے کے بعد فردا فردا سب سے سن کر بطور انعام کتابیں دی تھیں اس موقع پر ھدایت القران کا ایک سیٹ اور کچھ دیگر رسائل بندہ کے حصہ میں بھی آئی تھیں۔ اس کے علاوہ کوئی خاص ملاقات حضرت مفتی صاحب سے یاد نہیں،  ہاں تقریبا 3 سال قبل بنیا باغ وارانسی میں سیرت کے جلسہ میں حضرت  مفتی صاحب کی آمد ہوئی تھی اس وقت حاضری ہوئی تھی اور بہت تفصیلی ملاقات رہی۔
جب تک ہمارے خسر شیخ ثانی حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ بقید حیات تھے اس وقت کثرت سے دیوبند آنا جانا رھتا تھا، تو کبھی کبھی حضرت مفتی صاحب کے درس میں بھی شرکت کا موقع ملتا تھا۔
مفتی صاحب کا انتقال ممبئی میں ہوا اور تدفین بھی وہیں ہوئی اس کو مقدر ہی کہا جاسکتا ہے ورنہ تقریبا 50 سال مفتی صاحب نے دیوبند میں گزارے اور وہیں سکونت اختیار کر لیے تھے مگر مزار قاسمی میں دفن ہونا مقدر نہیں تھا، اب ہمارے بخاری شریف کے دونوں استاذ شیخ اول حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب رحمہ اللہ اور شیخ ثانی اور حضرت مفتی صاحب اللہ تعالی کے حضور پہنچ گئے ہیں،  شیخ اول صاحب کے انتقال کے موقع پر اتفاق سے دیوبند میں تھا اور جنازے میں شرکت ہوگئی تھی اور شیخ ثانی صاحب کے جنازے میں شرکت کی داستان ان کی سوانح حیات" تذکرہ قطب زماں"  میں مذکور ہے، اسی طرح حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ کے جنازے میں بھی شرکت ہوگئی تھی اس وقت بھی میں دیوبند میں تھا۔ 
اس طرح ١٣٦٠ھ میں اس آب و گل میں آنکھیں کھولنے والی یہ شخصیت بالآخر ٢٦ رمضان المبارك ١٤٤١ھ کو اس دارفانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئی۔
اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کو آپ کا بدل عطا فرمائے اور آپ کے لواحقین و پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
عبید اللہ شمیم قاسمی
٢٦ رمضان المبارك ١٤٤١ھ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے