رحمٰن کے مخصوص بندوں میں کون کون ہوگا؟


رحمٰن کے مخصوص بندوں میں کون کون ہوگا؟

پارہ 19

سورة الفرقان :۔
سوره فرقان مکی ہے اس 77 آیات اور 6رکوع ہیں ، اس سورت کے پہلے دو رکوع اٹھارہویں پارہ کے آخر میں گزر چکے ہیں، اس سورت کی ابتدا قرآن عظیم کے ذکرسے ہوئی ہے اس لیے اس سورت کا نام سورہ فرقان ہے (آیت :1 )




جس کے بارے میں مشرکین مختلف قسم کے اعتراضات اٹھاتے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے تھے، ایک گروہ اسے گزشتہ قوموں کے قصے اور کہانیاں قرار دیتا تھا، دوسرا گروہ اسے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا افتراء اور ایسی تخلیق کہتا تھا جس میں اہل کتاب نے آپ کے ساتھ تعاون کیا تھا، تیسرے گروہ کے خیال میں یہ واضح جادو تھا۔(1۔6)
قرآن کے بعد صاحب قرآن یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے، ضدی اور معاندلوگ آپ کی تکذیب کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ رسول ، بشر نہیں بلکہ فرشتہ ہوتا ہے اور اگر بالفرض انسانوں میں سے کسی کو نبوت ورسالت ملے بھی تو وہ دنیاوی اعتبار سے خوشحال اور  سربرآوردہ لوگوں کوملتی ہے، کسی غریب اور یتیم کو ہرگز نہیں مل سکتی ۔ (۷۔۹)
الله تعالی نے ان کی خام خیالیوں اور باطل دعووں کی تر دید واضح دلائل سے کی ہے۔
انیسویں پارہ کا آغاز بھی مشرکین کے دعووں ، اعتراضات اور لایعنی قسم کے مطالبات سے ہوتا ہے، مثال کے طور پر وہ بعض اوقات کہتے تھے کہ ہم پرفرشتے کیوں نہیں نازل کیے جاتے یا( ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم اپنے پروردگار کو دیکھ لیں ۔‘‘ (۲۱)
اس کے جواب میں فرمایا گیا فرشتوں کو یہ اس وقت دیکھ پائیں گے جب وہ ان کی روحیں قبض کرنے کے لیے آئیں گے اور جب یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے تو ان کے لیے کوئی خوش خبری | نہیں ہوگی ۔ چونکہ قبولیت اعمال کی بنیادی شرط یعنی ایمان سے یہ خالی ہیں اس لیے قیامت کے دن ان کے اعمال بھی کسی کام نہیں آئیں گے اور وہ خاک بن کر اڑ جائیں گے، وہ دن ان کےلیے بڑا سخت ثابت ہوگا، یہ ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کہ اے کاش! ہم نے پیغمبر کا راستہ اختیار کیا ہوتا ، اس دن اللہ کا رسول ، اللہ کے حضور شکایت کرے گا کہ  اے میرے رب! میری قوم نے قرآن چھوڑ دیا تھا، امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے قرآن کو چھوڑنے کی کئی صورتیں ہیں:
پہلی یہ کہ قرآن کو سنے ، نہ اس پر ایمان لائے۔ دوسری  یہ کہ پڑھتا بھی ہو اور ایمان بھی رکھتا ہو لیکن اس پر عمل نہ کرتا ہو۔ تیسری یہ کہ زندگی کے معاملات اور تنازعات میں اسے حکم نہ بنائے۔ 
چوتھی یہ کہ اس کے معانی میں غور و تد بر نہ کرے۔ پانچویں یہ قلبی امراض میں اس سے شفا حاصل نہ کرے۔
میرے محترم قارئین! اگلی سطریں پڑھنے سے پہلے کچھ دیر کے لیے رک جائے اور چندلمحوں کے لیے اپنے بارے میں اور پھر پوری امت کے بارے میں بے لاگ فیصلہ کیجئے کہ آج ہم کس کس انداز میں قرآن کو چھوڑ چکے ہیں اور یہ بھی سوچیے کہ جب ہم مہلک روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود نہ پرہیز کرتے ہیں اور نہ وہ آسمانی دوا استعمال کرتے ہیں جس میں یقینی شفا ہے تو اس کا نتیجہ مزید بیماریوں میں مبتلا ہونے اور ہلاکت کے سوا کوئی نکل سکتا ہے۔ یقینانہیں اور ہرگز نہیں۔
مشرکین یہ اعتراض بھی اٹھاتے تھے کہ جیسے تو رات اور انجیل یکبارگی نازل ہوئیں یونہی قرآن بھی یکبار کیوں نہیں نازل ہوا۔ ظاہر ہے کہ تدریجا قرآن نازل ہونے میں کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں مثلا اس کا حفظ کرنا، اس کے معانی کا سمجھنا، احکام کا ضبط کرنا اور عمل کرنا آسان تھا لیکن یہاں اللہ تعالی نے صرف ایک حکمت بیان کی ہے وہ یہ کہ تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کا قلب مبارک نور قرآن سے منور ہوتا ہے، اس کے حقائق اور علوم سے آپ کی روح کو غذا اور دل کو تقویت حاصل ہو ۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ یکا یک برسنے والی تیز بارش کھیتی کو تباہ کر دیتی ہے۔ لیکن مناسب وقت تک بتدریج برس کر زمین کے سوتوں میں جذب ہونے والی بارش سے بہت فائدہ ہوتا ہے ۔
ان اعتراضات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دینے
کے لیے حضرت موسی ، حضرت ہارون ، حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح علیھم السلام کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے علاوہ ازیں اللہ کی قدرت ووحدانیت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں ۔ (45۔49)
اس سورت کے آخر میں '' عباد الرحمن کے مخصوص بندوں) کی تیرہ صفات ذکر کی گئی ہیں . 
تواضع،
............. جاہلوں سے اعراض، .
...........راتوں کو نماز و عبادت،
... جہنم کے عذاب سے خوف،
خرچ کرنے میں اعتدال ، 
نہ فضول خرچی اور نہ ہی بخل، 
... شرک سے مکمل اجتناب،
 .. قتل ناحق سے بچ کر رہنا،
 ............زنا اور بدکاری سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا،
جھوٹی گواہی سے احتراز،
 ..........گانے بجانے اور برائی کی مجالس سے پہلوتہی، 
.............اللہ کی کتاب سن کر متاثر ہونا اور اس سے فائدہ اٹھانا، 
........... اللہ تعالی سے نیک بیوی بچوں کی دعا اور یہ دعا کہ ہمیں ہادی اور مہدی بنادیا جائے ۔ (63۔74)
آیئے قارئین! اگلی سورت کے مطالعہ سے قبل ہم الله تعالی سے دعا کر لیں کہ اے رحیم وکریم تو محض اپنے فضل و کرم سے یہ تیرہ صفات ہمارے اندر پیدا فرما کر ہمیں بھی '' عباد الرحمن میں شامل فرمائے۔ آمین۔۔
سورة الشعراء:-
 سوره شعراء مکی ہے، اس میں ۲۲۷ آیات اور 11 رکوع ہیں، 
اس سورت کی ابتدا حروف مقطعات میں سے ''طسم‘‘ کے ساتھ ہوئی ہے اور عمومی اسلوب کے مطابق اس کے فورا بعد بندوں پر اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان جو کہ قرآن کی صورت میں ہے اس کا ذکر ہے۔ قرآن کے بارے
میں ایک احساس ذمہ داری تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جو کہ اس کے علوم و معارف اور احکام بندوں تک پہنچانے میں اپنی جان کو ہلکان کیے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں انسانیت کی ہدایت کا ایسا درد تھا جو لگتا تھا کہ آپ کی جان ہی لے لے گا (2۔3)
دوسرارویہ مخالفین کا تھا جن کے سامنے نصیحت اور ہدایت کی جو بھی بات آتی تھی اس سے اعراص کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ (5۔6)
اس کے بعد اس سورت میں متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کے قصے بیان کیے گئے ہیں،
(1) ان قصوں کی ابتداءحضرت موسی علیہ السلام کے قصے سے ہوتی ہے، انہیں اللہ تعالی نے نبوت عطا فرما کر فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا، آپ حکم باری تعالی کی تعمیل میں خدائی کے اس جھوٹے دعوے دار کے دربار میں پہنچے، اس موقع پر فرعون اور آپ کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کی چند جھلکیاں اللہ نے سورہ شعراء میں ذکر فرمائی ہیں ، فرعون :
فرعون نےسب سے پہلے اپنے احسانات ذ کر کیے کہ میں نے  تمہاری تربیت کی تھی۔ 
حضرت موسی: 
آپ نے فرمایاتمہیں احسان جتلانے کا کیسے حق پہنچتا ہے جبکہ تم نے میری قوم کو غلام بنارکھا ہے، 
فرعون :
اس نے قتل کا واقعہ یاد دلایا جو اتفاقا آپ کے ہاتھوں ہو گیا تھا،
حضرت موسی :
آپ  نے جواب دیا کہ میں نے عمدا قتل نہیں کیا تھا بلک غلطی اور خطا سے مجھ سے یہ فعل  سرزد ہو گیا تھا،
 فرعون:
فرعون نے تکبر اور استہزاءکے ساتھ سوال کیا کہ یہ"رب العامین‘‘ کیا چیز ہے؟ 
حضرت موسی: 
"رب العالمین وہ ہے جس نے ارض و سما کو پیدا کیا ہے، ان دونوں میں اسی کا حکم چلتاہے تمہیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے اور تمہارےآباء کو بھی اسی نے پیدا کیا تھا، وہی مشرق سے سورج کوطلوع کرتا اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔
فرعون:
فرعون اولا بکواس بکتا رہا لیکن آپ نے رب العالمین کی تعریف اور تعارف تفصیل کے ساتھ ذکر کیا، پھر وہ دھمکیوں پر اتر آیا،
حضرت موسی:۔
آپ نے اسے معجزہ دکھانے کی پیشکش کی ، اس کے کہنے پر آپ نے لاٹھی زمین پر ڈال دی جو کہ اژدہا بن گئی ، ہاتھ کو کپڑے سے باہر نکالا تو وہ سورج کی طرح چمکنے لگا، اس کی چمک سے فرعون اور درباریوں کی آنکھیں چندھیا گئیں، اس معجزہ کو اس نے سحر محمول کیا اور آپ کو نیچا دکھانے کے لیے مصر سے نامی گرامی ساحروں کو جمع کر لیا، مصریوں کے سالانہ جشن اور عید کے دن ایک بڑے میدان میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے مقابلے کا آغاز ہوا۔ ساحر وں کی ڈالی ہوئی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑتے ہوئے سانپ محسوس ہونے لگیں، 
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ سارے سانپوں کو ہڑپ کرگئی، میدان صاف ہو گیا ، ساحر حقیقیت سمجھ گئے فورا" رب العالمین کے سامنے سجدے میں گر کر انہوں نے ایمان قبول کر لیا ۔ فرعون کی مار دھاڑ کی دھمکیوں کے با وجود وہ ایمان پر جمے رہے، حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو رات کی تاریکی میں مصر سے لے کر نکل گئے صبح ہوئی تو فرعون نے لاکھوں کا شکر لے کر تعاقب کیا، بالآ خر دریا کے کنارے بنی اسرائیل کو جالیا، دریا میں راستے بن گئے جن سے گزر کر بنی اسرائیل نجات پا گئے اور فرعون لاو لشکر سمیت غرق ہو گیا، اس قصہہ سے سبق ملا کہ بالآخر اہل حق کامیاب ہوتے ہیں اور ظالموں کا مقدر ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ۔ (10۔68)
دوسرا قصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیان ہوا ہے جن کے والد آزر اور قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی، آپ نے ان کو بڑی حکمت کے ساتھ ایمان و توحید کی دعوت دی، اس پر پانچدلائل اور الله تعالی کی پانچ صفات بیان کیں۔ 
(1)............. وہ میرا خالق و ہادی ہے۔ 
(2)........... وہ رازق ہے۔
(3)............ وہ بیماریوں سے شفادیتا ہے۔ 
(4)..........وہی موت دے گا ، وہی زندہ کرے گا۔
(5) ............ وہ دنیا و آخرت میں گناہ معاف کرنے والا ہے۔
ان پانچ صفات کے مقابلے میں پانچ دعائیں بھی کیں جو کہ کمال ایمان اور صدق یقین کی نشاندہی کرتی ہیں: .
............اے اللہ مجھے فہم و علم عطا فرما۔
 ......... لوگوں میں میرا اچھاذ کر جاری فرما۔ 
.......... مجھے جنت میں جگہ عنایت فرما۔
 ..... میرے والد کو معاف کردے (یہ دعا اس وقت کی تھی جبکہ والد کا کفر پر اصرار آپ کے سامنے واضح نہیں ہوا تھا) 
........... مجھے آخرت میں رسوا نہ فرمانا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے سے ہمیں یہ سبق ملا کہ انسان کو ہر حال میں اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ (69۔104)
تیسرا قصہ حضرت نوح علیہ السلام کا ہے جنہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سوسال ایمان کی دعوت دی لیکن انہوں حضرت نوح کی دعوت کو تھکرا دیا ۔ چنانچہ ان سب کوغرق کر دیا گیا، اس قصے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہدایت اسی کوملتی ہے جسے اللہ چاہے۔ (105۔122)
چوتھا قصہ حضرت ہود علیہ السلام کا ہے جو قوم عاد کے نبی تھے، یہ لوگ جسمانی قوت، عمر کی طوالت اور خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی ایک نمایاں قوم تھی ، انہوں نے بغیر ضرورت کے بڑے بڑے محلات تعمیر کر رکھے تھے، انہوں نے بھی ایمان کی دعوت کوٹھکرا دیا، چنانچہ ان پر بھی اللہ کا عذاب آ کر رہا، ان کے قصے سے یہ نصیحت ملی کہ فضول خرچی ، نمود ونمائش، بلاضرورت تعمیرات اور تکبر کا انجام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا۔ (۱۲۳-۱۴۰)
پانچواں قصہ حضرت صالح علیہ السلام کا ہے، انکی قوم کو مادی وسائل، رزق کی فراوانی اور امن وتحفظ حاصل تھا، سر سبز باغات اور بارونق زمینوں میں آباد تھے لیکن انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا شکر نہ کیا ۔ چنانچہ ان کو زلزلے کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا۔ اس قصے سبق یہ ملتا ہے کہ ہر ناشکری قوم کا انجام یہی ہوتا ہے۔(141۔159)
چھٹا قصہ حضرت لوط علیہ السلام کا ہے جن کی قوم فسق و فجور شہوت پرستی اور بدکاری میں حد سے بڑھ گئی تھی، وہ ایسا عمل کرتے تھے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا جس سے حیوان بھی نفرت کرتے ہیں، ان پر آ سمان سے پتھروں کی بارش برسی اور ان کا نام ونشان مٹ گیا۔ اللہ تعالی دوسرے قصوں کی طرح اس قصےکے آخر میں بھی فرماتے ہیں: بے شک اس میں نشانی ہے، ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے ‘‘
نشانی اور عبرت یہی ہے کہ نفسانی خواہشات کی تکمیل میں حد سے تجاوز کرنے والی قوم اور فرد کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ (160۔175)
ساتواں قصہ حضرت شعیب علیہ السلام کا ہے، ان کی قوم کو اللہ نے مختلف نعمتیں عطا فرمائی تھیں، گھنے جنگلات تھے ثمر بار باغات تھے  اور میٹھے پانی کے چشمے تھے لیکن یہ الله کی نافرمانی میں مبتلا ہو گئے، ان کے مختلف معاصی میں سے ایک بڑی معصیت یہ تھی کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی میں ڈنڈی مارتے تھے، جب سمجھانے کے با وجود باز نہ آئے تو اللہ نے ان کو عذاب دینے کا فیصلہ کیا۔
کئی دن تک سخت گرمی رہی پھر بادل چھا گئے ،یہ لوگ ٹھنڈک کے حصول کے لیے بادل کے نیچے جمع ہو گئے ، بادلوں سے آگ برسنے لگی ، زمین پر زلزلہ طاری ہو گیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے کوئلہ بن کر رہ گئے ۔ (176۔191)
قوم شعیب کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حقوق العبادغصب کرنا اللہ کے عذاب اور غضب کو دعوت دینے والاعمل ہے ۔ جیسے اس سورت کی ابتداء قرآن عظیم کے ذکر سے ہوئی تھی اسی طرح اس کا اختتام بھی قرآن کریم کے حوالے سے مشرکین کے باطل اعتراضات کی تردید سے ہورہا
ہے۔ (221۔227)
سورة النمل:-
 سورہ نمل مکی ہے، اس میں ۹۳ آیات اور 7 رکوع ہیں، اس کا آغاز حروف مقطعات میں سے (طس) سے ہورہا ہے ۔ نمل چیونٹی کو کہتے ہیں، چونکہ اس سورت میں چیونٹی کا ذکرہوا ہے اس لیے اس کا نام نمل ہے۔ 
سورہ نمل کی ایک خصوصیت  یہ بھی ہے کہ یہ ان تین سورتوں میں سے ایک ہے جو جس ترتیب سے نازل ہوئیں اسی ترتیب سے قرآن کریم میں موجود ہیں ۔ یعنی ''شعراء'' '' نمل'' اور قصص - حروف مقطعات والی دوسری سورتوں کی طرح اس کی ابتداء بھی قرآن کریم کی عظمت اور تعارف سے ہورہی ہے، بتایا گیا کہ یہ ان لوگوں کے لیے کتاب ہدایت ہے جو اہل ایمان ہیں (1۔3)
اس کے بعد حضرت موسی ، حضرت صالح اور حضرت لوط علیہم السلام کے قصہ اجمالی طور پر اور حضرت داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیها السلام کا قصہ قدرے تفصیل سے بیان ہوا
ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ نے انسانوں ، جنوں اور پرندوں کو مسخر کیا تھا اور وہ پرندوں کی زبان بھی جانتے تھے، ان کے جو حالات اللہ نے ذکر فرمائے ہیں ان کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں: ۔
 .............ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام کا گز راپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی کے پاس
سے ہوا تو انہوں نے سنا کہ ایک چیونٹی دوسری چیونٹیوں سے کہہ رہی تھی کہ جلدی سے اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ! کہیں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کا لشکر ہے خبری میں تمہیں روند نہ ڈالے۔“
آپ نے اس کا کلام سن لیا، آپ مسکرائے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ تو نے مجھے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں جن میں سے ایک نعمت پرندوں اور حیوانوں کی بولی بھی سمجھنا  ہے۔ (۱۸۔۱۹) ۔
.......... حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں مستقل حاضر باش پرندوں میں سے ایک پرندہ ہدہدبھی تھا، اس نے ایک دن آپ کو ملکہ سبا اور اس کی قوم کے بارے میں اطلاع دی کہ وہ سورج کی عبادت کرتے ہیں، آپ نے خط بھیج کر ملکہ سبا کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کے لیے کہا، ملکہ سبا کو اپنے مادی اسباب پر بڑا ناز تھا۔ لیکن جب اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے محلات اور ان کا جدید ترین ساز و سامان دیکھا تو اسے اپنی قوت و طاقت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔ (20-44)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد اختصار کے ساتھ حضرت صالح اور حضرت لوط علیہا السلام کا قصہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا ہے، حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو ایمان کی دعوت دی تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی یعنی مومن اور کافر ، کافروں میں نو لیدر قسم کے سردار تھے جنہوں نے آپس میں قسمیں کھا کر یہ طے کیا تھا کہ ہم رات کو اچانک حملہ کر کے اللہ کے نبی کوقتل کر دیں گے۔ لیکن اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی وہ اللہ تعالی کے عذاب کی لپیٹ میں آ گئے اور ان کا نام لینے والا بھی کوئی باقی نہ رہا۔ (45۔53)
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی آنکھوں کے سامنے ایسا اندھیرا چھایا اور ان کے دل ایسے تاریک ہو گئے کہ وہ دنیا کی بدترین بدکاری کو اچھا سمجھنے لگے اور ان کی نظر میں وہ شخص مجرم ٹہرتا جو اس برائی سے انہیں منع کرتا اور جو سر سے پاؤں تک اس گناہ کی نجاست میں غرق ہوتا، اسے وہ سمجھ دار خیال
کرتے۔ بالکل وہی صورت تھی جو آج کل ہمیں درپیش ہے، نیکی کی راہ پر چلنے والوں کو دقیانوس اور نامعلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے جبکہ برائی کا ساتھ دینے والوں کو ترقی پسند اور روشن خیال سمجھا جاتا ہے، جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو ان کی بستیوں کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیاگیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش بھی شروع ہوگئی، یوں وہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن گئے ۔ (54۔59)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے