سورہ کہف دجال سے مقابلے کے لئے تیار کرتی ہے | لجنة المؤلفین

سورہ کہف دجال سے مقابلے کے لئے تیار کرتی ہے | لجنة المؤلفین

خلاصة  القرآن یعنی آج رات کی تراویح | پندرہواں پارہ پندرہویں تراویح.

پارہ ١٥ 

سورة الاسراء۔۔۔۔ سوره اسراء مکی ہے، اس میں ۱۱۱ آیات اور ۱۲ رکوع ہیں ، اسراء کا معنی ہے رات کو لے جانا ، چونکہ اس سورہ میں واقعہ معراج کا ذکر ہے جس میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصی اور پھر وہاں سے آسمانوں پر لے جایا گیا تھا اس لیے اسے سوره اسراء کہا جا تا ہے ، یہ واقعہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا معجزہ اور آپ لیے بہت بڑا اعزاز تھا، یہ اعزاز انسانوں میں ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوا، یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا، اگر یہ نیند کی حالت میں پیش آیا ہوتا تو اسے اتنے اہتمام کے ساتھ قرآن کریم میں ذکر نہ کیا جاتا اور نہ ہی مشرکین اسے جھٹلاتے ۔ کیونکہ خواب میں تو اس واقعہ سے بھی زیادہ عجیب و غریب واقعات اور مناظر انسان دیکھتا ہے اور کوئی بھی اسے جھوٹا نہیں کہتا ، اس سورت کی پہلی آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ واقعہ معراج کے علاوہ جو اہم مضامین اس سورت میں بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1: بنی اسرائیل کو پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ تم ملک شام میں دوبار فساد مچاؤ گے اور دونوں بار ہم بطور سزا کے تمہارے اوپر اپنے بندوں کو مسلط کر دیں گے۔ چنانچہ پہلی مرتبہ جب انہوں نے تورات کی مخالفت کی اور حضرت شعیب علیہ السلام جیسے نبی کو ناحق قتل کیا تو ان پر بخت نصر اور اس کے شکر کو مسلط کر دیا گیا جو پورے ملک میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پھیل گئے ۔ انہوں نے علماء اور روساء کو قتل کردیا ، تورات جلا ڈالی ، بیت المقدس کو ویران کردیا اور بہت سارے اسرائیلیوں کو گرفتار کر کے لے گئے۔ دوسری بار یہود کا فتنہ و فساد اس وقت عروج کو پہنچ گیا جب انہوں نے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیهما السلام کو شہید کیا اور وہ گناہوں میں حد سے بڑھ گئے ، اب کی بار بابل کا ایک بادشاہ جسے ہی بردوس یا خردوس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان پر مسلط کر دیا گیا۔ یہی فتنہ وفساد یہود کی تاریخ رہی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی انہوں نے اپنے آباء کی روایت کے مطابق جب جرائم اور سازشوں کی راہ اختیار کی تو ان پر مسلمانوں کو غلبہ عطا کردیا گیا جنہوں نے انہیں جزیرہ عرب سے نکال باہر کیا۔ ماضی قریب میں ہٹلر ان کے لیے خدائی کوڑا ثابت ہوا جس نے بے شمار یہودیوں کو قتل کیا اور بے شمار کو زندہ جلا ڈالا ، آج پھر ان کا فتنہ وفساد عروج تک پہنچ گیا ہے اب دیکھیے ان پر اللہ کا قہر کب نازل ہوتا ہے۔
2: قرآن کریم کی عظمت، انسان کی فطرت و طبیعت میں داخل جلد بازی اور ہر انسان کے ساتھ اس کے عمل اورنتائج عمل کے لازم ہونے کا ذکر کرنے کے بعد اجتماعی زندگی کے تقریبا ۱۳ اسلامی آداب و اخلاق بیان کیے گئے ہیں ۔ حقیقت میں اخلاق و آداب ہی کی وجہ سے کوئی امت اور فرد عزت اور عظمت کے مستحق بنتے ہیں، بعض حضرات نے ان آداب کو معراج کا پیغام بھی قرار دیا ہے، یہ آداب جو آیت ۲۳ سے آیت ۳۹ تک مذکور ہیں درج ذیل ہیں۔
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، رشتہ داروں مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق دو، مال کو فضول خرچی میں نہ اڑاؤ، نہ بخل کرو نہ باتھ اتنا کشادہ رکھو کہ کل کو پچھتانا پڑے، اپنی اولا کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، کسی جاندار کو ناحق قتل نہ کرو ، یتیم کے مال میں ناجائز تصرف نہ کرو، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو، ناپ تول پورا پورا کیا کرو، جس چیز کے بارے میں تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، زمین پر اکڑ کر نہ چلو، آخر میں دوبارہ کہہ دیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو معبود نہ بناؤ۔ 
3: مشرکین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں ۔ (40)
اخروی زندگی کا انکار کرتے ہیں اور بڑے تعجب سے کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر کر بوسیدہ ہڈیاں اور چورا چورا ہو جا ئیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کیا جائے گا ۔ ( 49 ۔ 98)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں ، بھی کہتے ہیں ہم ایمان تب لائیں گے جب آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردیں ، کبھی کہتے ہیں کھجوروں اور انگوروں کا باغ لہلہا دیں کبھی کہتے ہیں ہمارے اوپر آسمان کا ٹکڑا گرا دیں یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آو کبھی کہتے ہیں تم اپنے لیے سونے کا گھر بنا کر دکھاؤ یا ہمارے سامنے آ سمان پر چڑھ جاؤ اور وہاں سے کوئی تحریر لے آؤ.
علاوہ ازیں اس سورت میں قرآن کریم کی عظمت وصداقت، اس کے نزول کے مقاصد اور اس کے معجزہ ہونے (9.82.88)، اللہ کی طرف سے انسان کو تکریم دیئے جانے (61.65)، اسے روح اور زندگی جیسی نعمت کے عطا ہونے (85)، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز تہجد کا حکم دیئے جانے (78.79)، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ (101.104) اور قرآن کریم کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے کی حکمت (105.106) جیسے مضامین بھی مذکور ہیں ۔ سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ الله تعالی شریک اور اولاد سے پاک ہے اور اسمائ حسنی کے ساتھ متصف ہے۔ 
سورة کہف۔۔۔۔۔ سورۂ کہف کی ہے، اس میں ۱۰ آیات اور ۱۲ رکوع ہیں، کہف غار کو کہتے ہیں چونکہ اس سورت میں غار والوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس لیے اسے سورۂ کہف کہا جاتا ہے ۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں ۔ امام احمد، مسلم اور نسائی نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ جوشخص سورۂ کہف کی آخری دس آیات پڑھے گا وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا‘ اہل علم کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ جمعہ کے دن یا رات میں سورة کہف پڑھی جائے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھے گا اس کے لیے دوجمعوں کے درمیان کو نور سے منور کر دیا جائے گا۔
سورة کہف ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتداء الحمد للہ سے ہوتی ہے باقی چار سورتیں یہ ہیں ۔ فاتحہ، انعام سبا اور فاطر ۔ حضرت مولانا علی میاں نور اللہ مرقدہ نے اس سورت کی تفسیر میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں طویل غور وفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس سورت کا موضوع ” معر کہ ایمان و مادیت ہے اور اس سورت کا آخری دور کے فتنوں سے خاص تعلق ہے جس کا سب سے بڑا علمبر دار دجال ہوگا، یہ سورت مسلمانوں کو دجال کے فتنہ سے مقابلہ کے لیے تیار کرتی ہے، اس سورت میں جتنے اشارے واقعات اور مثالیں گزری ہیں وہ سب ایمان اور مادیت کی کشمکش کو بیان کرتی ہیں ۔ سورۂ کہف میں تین قصے تھے اور تین تمثیلیں بیان ہوئی ہیں ۔


اسی مضمون کو آڈیو میں سننسے کے لئے ہمارے یوٹیوب چینل lajnah tv کو سبسکرائب کیجئے 
اس ویڈیو کو دیکھنے کے لئے ویڈیو آئکن پر کلک کیجئے 🔻

اصحاب کہف۔۔۔ پہلا قصہ اصحاب کہف کا ہے یہ وہ چند صاحب ایمان نو جوان تھے جنہیں دقیانوس نامی بادشاہ بت پرستی پر مجبور کرتا تھا، وہ ہر ایسے شخص کو قتل کردیتا تھا جو اس کی شر کیہ دعوت کو قبول نہیں کرتا تھا، ان نوجوانوں کو ایک طرف مال و دولت کے انبار، اونچے عہدوں پر تقرر اور معیار زندگی کی بلندی جیسی ترغیبات دی گئیں اور دوسری طرف ڈرایا دھمکایا گیا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں ان نو جوانوں نے ایمان کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم جانا اور اسے بچانے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے ۔ چلتے چلتے شہر سے بہت دور ایک پہاڑ کی غار تک پہنچ گئے ، انہوں نے اس غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا، وہ جب غار میں داخل ہو گئے تو اللہ نے انہیں گہری نیند سلا دیا، یہاں وہ تین سونو سال تک سوتے رہے جب نیند سے بیدار ہوئے تو کھانے کی فکر ہوئی، ان میں سے ایک کھانا خریدنے کے لیے شہر آیا، وہاں اسے پہچان لیا گیا ، تین صدیوں میں حالات بدل چکے تھے، اہل شرک کی حکومت کب کی ختم ہو چکی تھی اور اب موحد برسراقتدار تھے  ایمان کی خاطر گھر بار چھوڑنے والے یہ نوجوان ان کی نظر میں قومی ہیروز کی حیثیت اختیار کر گئے اس قصہ سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ مومن کو ایمان کے سلسلہ میں بڑاحساس ہونا چاہیے اور اگر خدا نخواستہ مادیت اور ایمان دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ آئے تو اسے بہرطور ایمان کی حفاظت ہی کو ہر مادی چیز پر ترجیح دینی چاہیے۔ 
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام ... دوسرا قصہ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیهما السلام کا ہے، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ کی طرف سے یہ اطلاع ہوئی کہ سمندر کے کنارے ایک ایسے صاحب رہتے ہیں جن کے پاس ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں تو آپ ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ، چلتے چلتے آپ سمندر کے کنارے گئے، یہاں آپ کی ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی اور آپ نے ان سے ساتھ رہنے کی اجازت مانگی، انہوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ کوئی سوال نہیں کریں گے، پھر تین عجیب واقعات پیش آئے، پہلے واقعہ میں حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کو پھاڑ ڈالا جس کے مالکان نے انہیں کرایہ لیے بغیر بٹھا لیا تھا۔ دوسرے واقعہ میں ایک معصوم بچے کو قتل کر دیا ، تیسرے واقعہ میں ایک ایسے گاؤں میں گرتی ہوئی بوسیدہ دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس گاؤں والوں نے انہیں کھانا تک کھلانے سے انکار کر دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام تینوں مواقع پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تیسرے سوال کے بعد حضرت خضر علیہ السلام نے جدائی کا اعلان کر دیا کہ اب آپ میرے ساتھ نہیں چل سکتے ۔ البتہ تینوں واقعات کی اصل حقیقت انہوں نے آپ کے سامنے بیان کردی ، فرمایا کشتی کا تختہ اس لیے توڑا تھا کیونکہ آگے ایک ظالم بادشاہ کے کارندے کھڑے تھے جو ہر سالم اور نئی کشتی زبردستی چھین رہے تھے۔ جب میں نے اسے عیب دار کر دیا تو یہ اس ظالم کے قبضے میں جانے سے بچ گئی یوں ان غریبوں کا ذریعہ معاش محفوظ رہا۔ بچے کو اس لیے قتل کیا کیونکہ یہ بڑا ہو کر والدین کے لیے بہت بڑا فتنہ بن سکتا تھا جس کی وجہ سے ممکن تھا وہ انہیں کفر کی نجاست میں مبتلا کر دیتا، جب کہ اللہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے انتہائی نیک والدین اس کی محض اس کی محبت میں ایمان سے محروم ہو جائیں ۔ اس لیے اللہ نے اسے مارنے کا اور اس کے بدلے انہیں با کردار اور محبت و اطاعت کرنے والی اولا د ینے کا فیصلہ فرمایا ۔ گرتی ہوئی دیوار اس لیے تعمیر کی کیونکہ وہ دو تیم بچوں کی ملکیت تھی ، ان کے والدین اللہ کے نیک بندے تھے، دیوار کے نیچے خزانہ پوشیدہ تھا اگر وہ دیوار گر جاتی تو لوگ خزانہ لوٹ لیتے اور نیک والدین کے دو یتیم بچے اس سے محروم ہوجاتے ، ہم نے اس دیوار کو تعمیر کر دیا تا کہ جوان ہونے کے بعد وہ اس خزانے کو نکال کر اپنے کام میں لاسکیں ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے سامنے شب و روز جو واقعات پیش آتے ہیں، کسی کو جوانی یا بچپن میں موت آجاتی ہے، کوئی کسی حادثہ کا شکار ہو کر زخمی ہو جاتا ہے، کسی عمارت گرجاتی ہے، کسی کا چلتا ہوا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے تو ان واقعات کے پس پردہ بڑی عجیب وغریب حکمتیں اور حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں ، اس دنیا کے ظاہر اور باطن میں بڑا اختلاف ہے۔ انسان کی نظر ظاہر میں الجھی رہتی ہے اور باطنی رازوں کے ادراک سے اس کی عقل قاصر رہ جاتی ہے۔ یہ قصہ مادیت کے ان علمبرداروں کی تردید کرتا ہے جو ظاہر ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے پس پردہ کسی حکیم و خبیر کی حکمت کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔
تیسر اقصہ۔۔۔ ذوالقرنین کا ہے لیکن اسے ان شاء اللہ ہم سولہویں پارہ کے اہم مضامین میں ذکر کریں گے۔ 
تین مثالیں ...... ان واقعات کے علاوہ تین مثالیں بھی سورة کہف میں ذکر کی گئی ہیں ۔ پہلی مثال ایک قصہ کی صورت میں پیش کی گئی ہے، یہ قصہ ایک ایسے شخص کا ہے جو انتہائی ثمر بار اور قیمتی باغوں کا مالک تھا، ان کے علاوہ مال و دولت کے حصول کے کئی دوسرے اسباب بھی اس کے لیے مہیا ہو گئے تھے، دولت کی کثرت نے اسے فخر اور غرور میں مبتلا کردیا، وہ بڑے بڑے دعوے
کرنے لگا ، اسے یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ ثروت و غنا اسے ہمیشہ حاصل رہے گی اور اس پر کبھی بھی زوال نہیں آئے گا۔ اس کا خیال تھا کہ اول تو قیامت قائم ہی نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو وہاں بھی مجھے خوشحالی حاصل رہے گی، اس کے صاحب ایمان دوست نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اسباب کو خدا کا درجہ مت دو، انہیں سب کچھ نہ سمجھ اور اللہ کو ہر گز نہ بھولو، اس کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے لیکن دولت نے اس کی آنکھوں پر ایک ایسی پٹی باندھ دی کہ سورج سے بھی زیادہ یہ روشن حقیقت اس کی سمجھ میں نہ آسکی ۔ پھر اللہ کا عذاب آیا اور اسکے باغات جل کر کوئلہ ہو گئے ، تباہی اور بربادی کے بعد وہ پچھتانے لگا کہ اے کاش! میں نے شرک نہ کیا ہوتا اور اسباب کو خدا کا درجہ نہ دیا ہوتا مگر اس کا پچھتاوا اس کے کسی کام نہ آیا۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ شخص خدا کو مانتا تھا اور قیامت کا مبہم سا تصور بھی اس کے دل میں تھا اور یہ جو اس نے کہا کہ اے کاش! میں نے شرک نہ کیا ہوتا تو اس سے مراد شرک فی الاسباب تھا یعنی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لینا اور مسبب الاسباب کو بھول جانا، اگر بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو ہم یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ غیر مسلم تو اس شرک میں مبتلا تھے ہی ، بہت سارے مسلمان بھی اس شرک میں مبتلا ہو چکے ہیں، اس میں شک نہیں کہ اسباب کو اختیار کرنا ایمان اور توکل کے منافی نہیں مگر اسباب کو موثر بالذات سمجھنا یقیناً ایمان کے منافی ہے۔
دوسری مثال۔۔۔ جو بیان کی گئی ہے وہ باری تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی ہے اور ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کر دو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے (زمین کی روئیدگی کا معاملہ ) آسمان
سے ہم نے پانی برسایا اور زمین کی روئیدگی اس سے مل جل کر ابھر آئی اور خوب پھلی پھولی ) پھر ( ہوا یہ کہ ) سب کچھ سوکھ کر چورا چورا ہو گیا ، ہوا کے جھونکے اسے اڑا کر منتشر کررہے ہیں اور کون سی بات ہے جس کے کرنے پر الله قادر نہیں ۔“ (آیت ۴۵) یعنی زوال اور فنا میں دنیا کی زندگی اس بارش کی طرح ہے جو آسمان سے برستی ہے اس کی وجہ سے پوری زمین سرسبز ہوجاتی ہے فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں، پھول کھل جاتے ہیں ، ہر طرف خوشنما منظر دکھائی دیتے ہیں پھر اس کمال پر زوال آتا ہے، پھول مرجھا جاتے ہیں ، پتے جھرنے لگتے ہیں فصل کو کاٹ دیا جاتا ہے، اسے پیروں تلے روندا جاتا ہے، جوانی ، زندگی ، خوشحالی اور عیش و عشرت کی ساری صورتیں عارضی ہیں، ان نعمتوں کی وجہ سے صرف جاہل اور احمق ہی دھوکے کا شکار ہوتے ہیں ، اصحاب عقل جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان اور زینت ہے، باقی رہنے والی اور ہمیشہ کی زندگی میں کام آنے والی چیزیں نیک اعمال ہیں ، صدقہ خیرات ہے، ذکر و تلاوت ہے، اچھے اخلاق ہیں اور بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی ہے۔
تیسری مثال۔۔۔ تکبر اور غرور کی ہے اور اسے حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس کے قصہ میں بیان کیا گیا ہے جب اس نے کبر و غرور کی وجہ سے اللہ کے حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں افضل ہوں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ افضل مفضول کے سامنے سجدہ کرے۔ اس قصہ کے ضمن میں انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی فخر اور گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو اور اللہ کے حکموں کے سامنے منطق نہ لڑائے کہ بندگی کا تقاضا تسلیم و انقیاد ہے نہ کہ حجت بازی اور انکار۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے