خلاصة القرآن یعنی آج رات کی تراویح :نواں پارہ نویں تراویح


خلاصة  القرآن یعنی آج رات کی تراویح :نواں پارہ نویں تراویح

پارہ ٩

آٹھویں پارہ کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام کا قصہ شروع ہوا تھا ، اس قصے کا بقیہ حصہ نویں پارہ کے آغاز میں بیان کیا جارہا ہے، جب حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی برائیوں اور فتنہ و فساد پر روک ٹوک کی تو ان کے متکبر سرداروں نے دھمکی دی: "اے شعیب! ہم تمہیں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ تم بھی ہمارے دین میں آ جاؤ"۔ آپ نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، باقی جو کچھ کرنا ہے کر لو، ہم اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہیں ۔
ان مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جھٹلانے والی قوموں کے بارے میں ہماری سنت اور ہمارا دستور یہ رہا ہے کہ ہم انہیں ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، تنگی اور تکلیف میں بھی مبتلا کرتے ہیں کہ شاید وہ ہماری طرف رجوع کریں، لیکن جب وہ نرمی با سختی کسی بھی طریقہ سے نہیں سمجھتے تو ہم انہیں اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور انہیں خبر ہی نہیں ہوتی۔ پھر ان قصوں کے آخر میں گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قوم کے انکار اور استکبار پر حزين وملول نہ ہونے کی تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ: "یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ احوال ہم آپ کو سناتے ہیں، ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے ، پھر ایسا نہ ہوا کہ اس بات پر ایمان لے آتے جسے وہ پہلے جھٹلا چکے تھے ۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے"۔
وہ چھ انبیاء جن کے قصے سوره اعراف میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سے تفصیل کے ساتھ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے، اس لیے کہ ان کی قوم کی جہالت اقوام عالم کی جہالت
سے بڑھ کر تھی ، اور آپ کی مخاطب قوم میں ایسا فرد بھی تھا جو خدائی کا دعوے دار تھا، آپ کو جو معجزات عطا کیے گئے وہ بھی سابقہ انبیاء کے معجزات کے مقابلہ میں زیادہ واضح تھے ، خاص طور پر عصا اور ید بیضا ، یہ دو ایسے معجزے تھے کہ جن کا انکار کرنے کے لیے دل کے اندھوں کو بھی خاصے
تعصب اور ضد و عناد سے کام لینا پڑ ا ہوگا ۔ فرعون اور اس کی قوم یعنی قبطیوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا تھا اور وہ ان پر جو رو جفا کے نئے نئے طریقے آزماتے رہتے تھے۔ بنی اسرائیل اس زمانے میں مصر آئے تھے جب ان کے شہر اور گاؤں شدید قحط کی لپیٹ میں آ گئے تھے، پھر وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زیر سایہ یہیں آباد ہو گئے اور ان کی نسل میں روز بروز اضافہ ہوتا
گیا۔ یہاں تک کہ ان کا شمار مصر کی دوسری بڑی قوم میں ہونے لگا ، پھر مختلف فرعونوں نے اپنے اپنے دور میں انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کیا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو بدترین غلامی سے رہائی دلا کر ان کے اپنے وطن یعنی ارض مقدس میں لے جانا چاہتے تھے اسی لیے آپ نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ: "بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو" (۱۰۵/ ۷)
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ میں رب العالمین کی طرف سے رسول بن کر آیا ہوں تو فرعون نے مذاق کے طور پر کہا: "اچھا! اگر واقعی تم اپنے دعوے میں بچے ہو تو کوئی معجزہ دکھاؤ"۔ آپ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک اژدہے کی شکل اختیار کرگئی ، پھر آپ نے اپنا ہاتھ باہر نکالا، اس سے ایسا نور نکلا جس سے ارض و سما کے درمیان چکا چوند ہوگئی، بعض تفسیروں مثلاً طبری اور ابن کثیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب فرعون نے لائی کو سانپ بنتے ہوئے دیکھا تو ڈر کے مارے تخت سے چھلانگ لگا دی اور بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے یہ ڈر لاحق ہو گیا کہ ہمیں لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لے آئیں ، اس لیے اس نے اپنے مشیران خاص سے کہا کہ یہ ایک جادوگر ہے جو تمہارے اس ملک پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ لہٰذا تم مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہمارے ملک میں بڑے بڑے ماہر جادو گر ہیں، ان سب کو جمع کر لیا جائے تا کہ وہ ایک مجمع عام کے سامنے موسیٰ کو شکست فاش دیں ۔ چنانچہ یہیں کیا گیا ، ایک مخصوص میدان اور معین دن میں مصر کے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے ، ساحروں کے جادو کے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا معجزہ دکھایا تو ساحران مصر بے اختیار سجدے میں گر گئے اور انہوں نے ایمان قبول کرلیا، ان کے قبول ایمان نے فرعون کو سیخ پا کر دیا اور وہ گالم گلوچ اور دھمکیوں پر اتر آیا۔ لیکن ان نو مسلموں کے دل کی گہرائی میں ایمان کی جڑ چندلمحوں ہی میں اس قدر پیوست ہوگئی تھی، کہ فرعون کی دھمکیاں ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔
فرعون اور اس کی قوم کی جانب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے جواب میں مسلسل تکبر سرکشی ، انکار اور ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں یکے بعد دیگرے مختلف عذابوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر دیا۔ اللہ نے ایسا طوفان بھیجا جس سے ان کی کھیتیاں تباہ ہو گئیں، ٹڈیوں کے دل آئے جو درختوں کے پتے تک چٹ کر گئے ، اسی قدر چچڑیال  پیدا ہوئیں کہ انہوں نے جمع شدہ غلے کو نا قابل استعمال کر دیا ۔ مینڈکوں کی کثرت ہوگئی بات کرنے کے لیے منہ کھولتے تو مینڈک منہ کی طرف چھلانگ لگاتے ، ان کی نہروں، کنوؤں اور ملکوں کا پانی خون میں تبدیل ہو گیا، جب کوئی عذاب آتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے آہ و زاری اور عہد واقرار کرتے کہ اگر اللہ نے اس عذاب سے نجات دے دی تو ہم ایمان لے آئیں گے لیکن جب عذاب ٹل جاتا تو وہی کچھ کرنے لگتے جو پہلے کر رہے ہوتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعونیوں کے عذاب سے نجات دے دی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں رات کی تاریکی میں مصر سے لے کر نکل گئے ۔ آزادی نصیب ہوئی تو دستور زندگی کی ضرورت محسوس ہوئی ، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو کوہ طور پر بلایا ، وہاں آپ نے چالیس روزے رکھے ، پھر آپ کو باری تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف بھی حاصل ہوا اور دستور زندگی کے طور پر تورات بھی عطا ہوئی ، آپ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں سامری کے بہلانے پھسلانے پر اسرائیلیوں نے بچہرے کی عبادت شروع کردی ، آپ واپس تشریف لائے تو آپ کو ان کی اس مشرکانہ حرکت سے بے پناہ دکھ ہوا۔ اسرائیلی عجیب قوم تھے، قدم قدم پر پھسل جاتے تھے، وعدے کرتے تھے اور بھلا دیتے تھے، احکام الٰہیی کا مذاق اڑاتے تھے، ان میں تاویل و تحیف تک سے باز نہیں آ تے تھے، انہیں حکم دیا گیا کہ بیت المقدس میں سر جھکا کر داخل ہونا مگر وہ سر اٹھا کر اور گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے، انہیں کہا گیا کہ ہفتے کے دن اللہ کی عبادت کے سوا کچھ نہ کرو ۔ مگر وہ حیلے بہانے سے مچھلی کا شکار کرنے لگے ، ان کے سروں پر کوہ طور اٹھا کر تو رات عمل کا وعدہ لیا گیا مگر وہ اپنے وعدے کو نبھانے میں ناکام رہے۔ یہ تمام واقعات سوره اعراف میں تفصیل سے مذکور ہیں ۔ جب بنی اسرائیل سے وعدہ لینے کا ذکر ہوا تو اسی کی مناسبت سے بارہویں رکوع میں بتایا گیا کہ عالم ارواح میں تمام انسانوں سے بھی اللہ کے حکموں کی تکمیل کا وعدہ لیا گیا تھا مگر اکثر انسانوں نے اس عہد کو فراموش کر دیا۔ اس کے بعد سورت کے اختتام تک جو اہم مضامین مذکور ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1: بلعم بن باعوراء کا قصہ: جسے علم وشرف عطا کیا گیا تھا لیکن بد بخت نے اپنے علم کو دنیا کے چندسنگریزوں کے عوض فروخت کر دیا۔ (178/175/7)
اس قصے سے ہمیں یہ عبرت حاصل ہوتی ہے عمل اور اعلیٰ اخلاق کے بغیر خالی خوالی علم اللہ کے ہاں کسی کام کا نہیں اسی لیے عرب شاعر نے کہا ہے کہ:

لوكان في العلم من دون التقي
شرف لكان اشرف خلق ال ابليس

(اگر تقویٰ کے بغیر علم میں کوئی شرف کمال ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ابلیس سب سے زیادہ معزز ہوتا)
2: کفار ، چو پاؤں کی طرح ہیں کیونکہ وہ اپنے دل و دماغ ، آنکھوں اور کانوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ایمان سے محروم رہتے ہیں ۔ (179/7)
جولوگ عقل اور دماغ کو دین کے لیے استعمال نہیں کرتے وہ دیوانے ہیں، جو آیات الہٰیہ نہیں سنتے وہ بہرے ہیں اور جو انہیں نظر بصیرت سے نہیں دیکھتے وہ اندھے ہیں۔
3: اللہ تعالیٰ کفار کو اس دنیا میں مہلت دیتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انہیں اچا نک پکڑ لیتا ہے ۔ (۱۸۲/ ۷) مہلت کے وقفہ کی وجہ سے بسا اوقات انسان دھوکا کھا جاتا ہے اور گناہوں پر مزید جاری ہو جاتا ہے۔
قیامت کا معین علم کسی کو بھی نہیں ہے۔ (۱۸۷/ ۷)
5: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اخلاق کریمانہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ، فرمایا: آپ عفو اختیار کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کر لیں، اس مختصر آیت میں وہ اعلی اخلاق آگئے ہیں جنہیں اختیار کرنے کی اسلام دعوت دیتا ہے اور ان برے اخلاق سے بچنے کی تلقین بھی آ گئی جن سے بچنا ایک نیک انسان کے لیے ضروری ہے۔
سوره اعراف کی ابتدا بھی قرآن کی عظمت کے بیان سے ہوئی تھی اور اس کا اختتام بھی قرآن کی تعظیم اور ادب واحترام کے بیان پر ہوا ہے فرمایا گیا جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ جب کوئی شخص قرآن کی عظمت کوملحوظ رکھتے ہوئے توجہ سے سنتا ہے اور اس کی آیات میں غور و تدبر کرتا ہے تو اس کا دل متاثر ہوتا ہے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔

سورة الانفال سوره انفال مدنی ہے، اس میں پچھتر آیات اور دس رکوع ہیں، دوسری مدنی سورتوں کی طرح اس میں شرعی احکام کے بیان کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ خاص طور
جہاد فی سبیل اللہ کا موضوع اس میں بہت نمایاں ہے، یہ سورت غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی جو کہ تاریخ اسلام میں ہونے والے غزوات کی بنیاد اور ابتدا تھا، اس غزوہ میں اللہ کی نصرت کا دیکھتی آنکھوں سے مشاہدہ کیا گیا اور ایک چھوٹے سے لشکر نے اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ۔ اس سورت کی ابتدا مال غنیمت کا حکم بیان کرنے سے ہوئی ہے
کیونکہ اس کی تقسیم کے بارے میں مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو گیا تھا، اس کے بعد نیچے مومنوں کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں یعنی اللہ کی خشیت ، تلاوت قرآن سے ایمان کی زیادتی رحمٰن پر توکل ، نماز کی حفاظت اور اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان ۔ اگلی آیات میں غزوہ بدری تفصیل ہے۔
سوره انفال کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالی مومنوں کو چھ بار "یا ایها الذين آمنوا ‘‘ کے محبت آمیز الفاظ سے خطاب فرما کر انہیں ایسے اصول بتائے ہیں جن پر۔ عمل پیرا ہو کر وہ میدان جہاد میں کا میابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں ۔ 
پہلا خطاب آیت 15 میں ہے جس میں فرمایا گیا: اے ایمان والو! جب تم میدان جنگ میں کافروں سے ٹکراؤ تو ان سے پیٹھ مت پھیرو‘‘
دوسرا خطاب آیت ۲۰ میں ہے جس میں ہے: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کرو اور اس سے سن کر اعراض نہ کرو۔
تیسرا خطاب آیت ۲۳ میں ہے: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کا حکم مانو جب وہ تمہیں ایسے کام کی طرف بلائیں جس میں تمہاری زندگی ہے۔
چوتھا خطاب آیت ۲۷ میں ہے: اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور آپس کی امانتوں میں جان بوجھ کر خیانت نہ کرو‘‘
پانچواں خطاب آیت ۲۹ میں ہے: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہیں فرقان عطا کردے گا تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تہمیں بخش دے گا اور اللہ بڑے افضل والا ہے
چھٹا خطاب آیت ۴۹ میں ہے اور یہ آیت دسویں پارہ میں ہے: اے ایمان والو! جب کی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہوتو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا ورنہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
ان آیات میں جن باتوں کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل پیرا ہو کر اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے باز آ کر مسلمان یقینا دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقتور قوم بن سکتے ہیں ۔ ایسی جماعت بھی شکست سے دوچار نہیں ہوسکتی جو دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے، جو اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرنے والی ہو، جو اس کی دعوت پر لبیک کہنے والی ہوں جس میں دلوں کی زندگی اور عزت و سعادت کا راز پوشیدہ ہو، جو نہ دین میں خیانت کرتی ہو اور نہ دنیاوی حقوق کی
ادائیگی میں خیانت کا ارتکاب کرتی ہو، سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خوف خدا اور تقوی کی صفت سے متصف ہو اور آخری بات یہ کہ وہ مصیبتوں اور آزمائشوں میں بھی اللہ تعالی کا ذکر کرتی رہے، اس کا کلمہ ایک ہو، اس کی صفوں میں کامل اتحاد ہو، وہ نفسانی اور گروہی تنازعات اور اختلافات میں مبتلا نہ ہو۔ ذرا غور کیجیے جس جماعت میں یہ صفات پائی جائیں وہ بھی شکست کھا سکتی ہے یقینا وہ فتح ہی سے ہمکنار ہوگی اگرچہ اس کا مقابلہ پہاڑوں ہی سے کیوں نہ ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے