ماہ رمضان اوروقت کی حفاظت



ماہ رمضان اوروقت کی حفاظت



محمد سالم سَرَیَّانوی

 ماہ رمضان کا ایک عشرہ مکمل ہوکر دوسرا عشرہ شروع ہوچکا ہے، بعض احادیث میں پہلے عشرے کو ’’رحمت‘‘ کا عشرہ کہا گیا ہے، جب کہ دوسرے عشرے کو ’’مغفرت‘‘ کا اور تیسرے کو ’’جہنم سے نجات‘‘ کا عشرہ کہا گیا ہے، ویسے پورا کا پورا رمضان ’’رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات‘‘ کا ذریعہ ہے، جیسا کہ کئی ایک روایتوں سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے رمضان کا مہینہ پانے والے کو ان تمام چیزوں کی ہر وقت فکر کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس مقدس مہینے میں اللہ تعالی کی رحمت ومغفرت بارش کی طرح برستی ہے، جو چاہے جب چاہے جتنا چاہے لے سکتا ہے، اس مبارک مہینے میں کوتاہی کرنے والا اور غافل رہنے والا حقیقی محروم ہے؛ کیوں کہ پورے سال اس جیسا مہینہ نہیں، اور خدا کی رحمت ومغفرت اتنی زیادہ برستی نہیں ہے۔
 اِس وقت ’’کورونا وائرس‘‘ کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہے، جس میں ہمارا وطن بھی ہے، کورونا کی وجہ سے ملکی لاک ڈاؤن بھی چل رہا ہے، جس کا تیسرا مرحلہ دو ہفتے کا ہے، ملکی لاک ڈاؤن کے چلتے کاروبار بند ہیں، تجارت کی راہیں مسدود ہیں، اور ہر شخص فارغ اور خالی ہے، ایسے ماحول میں رمضان کے بابرکت ایام چل رہے ہیں، دیکھا جائے تو عام مسلمانوں کے لیے دنیاوی مسائل سے قطعی نظر ایک بیش بہا نعمت حاصل ہوئی ہے، جو اَب سے پہلے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی، اور نہ بطاہر آگے ملنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ (اس فراغت کو میں نعمت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کوئی کام دھندہ نہیں ہے، گھر میں ہی رہنا ہے، لیکن اس لاک ڈاؤن میں جن کے کھانے اور رہنے کے لیے مسائل ہیں اور جو اس مہاماری میں حالات ومصائب سے جوجھ رہے ہیں وہ اس سے الگ ہیں، مگر پھر بھی کسی نہ کسی حد تک وہ بھی اس نعمت کے پانے والے ہیں۔)
 اب رمضان کے مقدس مہینے میں اِس فارغ البالی سے فائدہ اٹھانا اور اس کو کام میں لانا ہر فرد کی ذمہ داری ہے، اور اس کو صحیح استعمال کرنا ہر شخص کے لیے امانت ہے، جس کی ادائیگی ضروری ہے۔ ویسے بھی ایک مسلمان کی زندگی اور اس کا شب وروز امانت ہے، جس کو ناپ تول کر خرچ کرناضروری ہے، یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے، جس کا مقصد آخرت کی تیاری اور اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنا ہے، اس لیے اس کو ضائع ہونے سے بچانا ہر وقت کی ذمہ داری ہے، مقصد تخلیق ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ } [سورۃ الذاریات:۵۶] ’’اور میں نے جنات اور انسان کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیت کے علاوہ کئی آیات میں اس طرح کا مضمون دہرایا گیا ہے۔
 آیات کے علاوہ احادیث کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جس میں عام انسانوں کو مقصد کے مطابق زندگی گزارنے اور غیر ضروری ولا یعنی مشاغل سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور مختلف احادیث میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ صحت وجوانی بیش بہا انعام وعطیہ ہے، اس کی قدر کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا، بل کہ یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان سے اس کی زندگی واعمال کا حساب لیا جائے گا اور حساب وکتاب کے بغیر وہاں سے ہٹنا نا ممکن ہوگا، حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: {لا تزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسئل عن عمرہ فیم أفناہ، وعن علمہ فیم فعل، وعن مالہ من أین اکتسبہ وفیم أنفقہ، وعن جسمہ فیم أبلاہ؟} [رواہ الترمذي] ’’ قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم اس وقت تک ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ اس سے اس کی عمر کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے کہ عمر کہاں خرچ کی؟ علم کے بارے میں کہ اس میں کیا کیا؟ مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جسم کے بارے میں اس کو کہاں ختم کیا؟‘‘
 اسی طرح ایک روایت میں پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھنا ارشاد فرمایا گیا ہے، جس میں جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، مالداری کو محتاجی سے پہلے، فارغ البالی کو مشغولی سے پہلے اور زندگی کو موت سے غنیمت سمجھنا ذکر کیا گیا۔ (الترغیب والترہیب )
 اسی کے ساتھ لایعنی اور غیر ضروری مشاغل ترک کرکے ایسے کاموں میں اپنے کو لگانا جو سود مند اور نفع بخش ہوں اس کی بھی احادیث میں ترغیب دی گئی ہے، بل کہ ایک مسلمان کے اسلام کی خوبی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو چھوڑ دے۔ نفع بخش چیزوں کو حاصل کرنے کے بارے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: {احرص علی ماینفعک} [رواہ مسلم] ’’ کہ ان چیزوں کی حرص کرو جو تم کو نفع دے‘‘۔ لایعنی چھوڑنے کے تعلق سے آپ ﷺ کا ارشاد ہے: {من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ} [رواہ الترمذي] ’’کہ کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور غیر ضروری چیزوں کو چھوڑ دے‘‘۔
 موجودہ لاک ڈاؤن میں فراغت اور فرصت کے لمحات سے فائدہ اٹھانا اور رمضان کے مقدس مہینے کو اللہ کی طاعت وبندگی اور اس کی رضا وخوشنودی میں خرچ کرنا ہر مسلمان کا معمول ہونا چاہیے تھا، اور صورت حال ایسی ہونی چاہیے ہوتی ہے کہ ہر فرد اللہ کو راضی اور خوش کرنے میں لگا ہوتا؛ تاکہ اس کی رحمت خصوصی طور پر متوجہ ہوتی اور مصائب ومشکلات سے چھٹکارا ملتا، لیکن……
  اس بابرکت مہینے میں لوگوں کی مشغولیات کو دیکھ کر نہایت کڑھن اور تکلیف ہوتی ہے، جن کو نماز، روزہ، تلاوت قرآن اور ذکر واذکار میں رہنا چاہیے تھا وہ آج لایعنی اور غیر ضروری مشاغل میں لگے ہوئے ہیں، قیمتی اوقات کو یونہی ضائع کررہے ہیں، اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ نوجوان طبقہ جو ہر قوم کا مستقبل ہوتا ہے وہ موبائل گیم، ویڈیوز، گپ شب اور اِدھر اُدھر کی خرافات وواہیات میں پورا وقت گزار رہا ہے، جیسے لگتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوچکا ہے، اس کو عمل سے کوئی مطلب نہیں، اپنی خواہشات کے مطابق جو چاہے کرے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ العیاذ باللہ
 اس بابرکت اور مقدس مہینے کا احترام نہ کرنا، اس کے مقاصد کو بروئے کار نہ لانا، روزہ وتراویح کے مقصد کو نہ سمجھنا، فرائض ونوافل میں نہ لگنا، تلاوت اور ذکر واذکار سے کترانا بہت بڑی محرومی اور نقصان کا سبب ہے، جس کی تلافی کسی اور موقع پر نہیں کی جاسکتی ہے۔
 اگر قوم مسلم بالخصوص نوجوانوں کے حالات اور ان کے شب وروز کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات اچھی طرح سے واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی سے غافل ہیں، ان کے لیے رمضان اور غیر رمضان برابر ہے، ان کو آخرت اور وہاں کی نعمتوںاور تکلیفوں سے کچھ سروکار نہیں، اس مہینے میں رات ودن خدا کی برسنے والی رحمت ومغفرت کے وہ مستحق نہیں بن رہے ہیں، انھیں اپنی معافی کی فکر نہیں ہے، مزید برآں وہ ایسے مشاغل میں لگے رہتے ہیں جن سے خدا کے قہر اور غصہ کو دعوت ملتی ہے، اللہ کی ناراضگی کو مول لیا جاتا ہے، اور ساتھ ہی روزے کے ثواب سے بھی اپنے کو محروم کیا جاتا ہے، کیوں کہ ان اعمال سے روزے میں کراہت آتی ہے، اور کراہت کے ساتھ روزہ رکھنے میں صرف فرض ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے، نہ کہ اس کا ثواب ملتا ہے، الا یہ کہ اللہ چاہے۔
 آج اتنے سخت حالات اور مشکلات ہونے باوجود اپنے کو نہ سمجھنا، اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہ ہونا، خدا کی طاعت وبندگی میں نہ لگنا، رسول کی سنتوں سے کنارہ کش رہنا کس قدر محرومی اور نقصان کا سبب بن سکتا ہے اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے، اللہ ہی رحم فرمائے۔
 اس فانی دنیا کے اندر ہمارا وجود چند روزہ ہے، ایک خاص مقصد کے لیے ہے، اپنے کو بے مقصد سمجھنا سخت ترین غلطی ہے، یہ تو گزشتہ امتوں اور قوموں کا نظریہ تھا جس کو قرآن میں بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اس لیے رمضان کے اس مقدس اور بابرکت مہینے میں اپنے کو خدا ورسول کی اطاعت میں لگایا جائے، رمضان اور روزے کے مقصد کو سمجھا جائے اور جو اعمال کرنے کے ہیں جیسے روزہ، تراویح، تلاوت اور ذکر واذکار ان کو کیا جائے، اوقات کو ضائع کرنے اور لایعنی مشاغل میں لگانے، موبائل گیمز کھیلنے، گپ شپ کرنے اور بے ہودہ گوئی میں گزارنے سے مکمل بچا جائے، ورنہ وہ دن دور نہیں جس میں ہماری موت کا وقت آجائے اور ہم بے یارومددگار دنیا سے چلے جائیں، وہاں جانے کے بعد سوائے افسوس کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، جو کہ نفع بخش نہیں ہوگا۔
 یاد رکھنے کی بات ہے کہ یہ مقدس مہینہ عبادت کے لیے ہے، رحمت ومغفرت اور جہنم سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے ہے، اگر کوئی اس مہینے کو ضائع کردے اور اپنے کو اللہ کی رحمت مغفرت کا مستحق نہ بنائے تو اس کی ہلاکت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے، اس لیے کہ ایسے شخص کو احادیث میں ہلاک ہونے والا اور اللہ کی رحمت سے دور ہونے والا قرار دیا گیا ہیـ۔ ایک مرتبہ رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے جب کہ آپ منبر پر چڑھ رہے تھے، اس دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام نے تین بددعائیں دیں، جن پر آپ ﷺ نے آمین کہی، ان تین میں ایک وہ شخص بھی ہے جس نے رمضان کا بابرکت مہینہ پایا پھر بھی اللہ کی عبادت کرکے اپنے کو اس کی مغفرت کا مستحق نہ بنا سکا۔ (مستدرک حاکم)
 اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اس مہینے کی قدردانی کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
 (تحریر11 /رمضان1441 ھ مطابق5 /مئی2020 ء منگل)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے