حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ قسط ١


حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ قسط ١
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ  قسط ١

سلطان محمود غزنوی سومنات کی جنگ ہار جاتا مگر عین لڑائی کے دوران اسے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بخشاہوا خرقہ یاد آیا اور سلطان نے اسی خر قے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر دعا کی۔
دشمنوں کی بساط الٹ گئی  اور سلطان محمود غزنوی فاتح قرار پایا، پھر تاریخ نے اس کے نام کو بت
شکن کی حیثیت سے محفوظ کرلیا۔۔ مگر سلطان کی اولاد اس ورثے کی حفاظت نہ کرسکی اور ایک بزرگ کی دعاؤں سے حاصل کی ہوئی عظیم الشان سلطنت کو گنوادیا۔

یہی حال شهاب الدین غوری کا تھا۔ اسے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی دعاؤں طفیل پرتھوی راج چوہان پر غلبہ حال ہوا مگر غوری کے وارث بھی ان دعاؤں کی تاثیرات کو برقرار نہ رکھ سکے۔
شهاب الدین غوری سے لے کر سلطان ابراہیم لودھی تک مسلمان برصغیر کی قسمت کے مالک رہے۔۔۔۔  مگر سلطان شمس الدین التمش اور ناصر الدین محمود کے سوا کوئی تیسرافرمان روا ایسا نہیں تھا جس نے نظام اسلام کی آبیاری کے لئے اپنا خون صرف کیا ہو۔ ویسے سب مسلمان تھے مگر ان کی توجہات کا مرکز صرف ان کی اپنی ذات تھی۔ سلطان سکندر لودھی ایک پارسا شخص تھا مگر اس کا بڑا بیٹا ابراہیم لودی ہزاروں برائیوں اور خرابیوں کا مجموعہ۔ اس کے غرور تکبر کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے خونی رشتے داروں کو بھی غلام سمجھتا تھا۔
قدرت نے ابراہیم لودی کو اس کے اعمال کی سزا دینے کیلئے ایک چھوٹی سی ریاست فرغانہ کے حکمراں ظہیرالدین بابر کو دہلی اور آگرہ پر بطور عذاب نازل کیا۔ یہ مغل زاده برسوں اپنے اس شعر پل عمل کرتا رہا اور خانہ بدوشوں کی طرح مارا مارا پھرتا رہا۔
   
نوروز و نوبهار و مئے دلربا خوشی است
 بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوباره نیست۔  

مگر جب وہ پانی پت کے میدان میں رانا سانگا کے دو لاکھ راجپوتوں کے مقابل آیا تو اپنا سارا فلسفہ کیف ونشاط بھول گیا۔ بابر کو احساس ہوا کہ معرکہ صیاح میں علم نجوم، ساغر و صراحی اور چنگ و رباب اس کے کسی کام نہیں آسکتے۔ مجبورا اس نے خالق کائنات کے سامنے فرش خاک پر سر رکھ دیا اور گریہ و زاری کرنے لگا۔
"اے خدا مجھے لشکر کفار پر غلبہ عطا فرما! میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد اس حرام شے کو منہ نہیں  لگائوں گا۔
یہ دعا مانگ کر ظهیرالدین بابر نے علم نجوم کی کتابوں کو آگ لگا دی اور شراب کے برتن توڑ ڈالے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک طرف راجپوتوں کا خون بہتا رہا اور دوسری طرف نادر و نایاب شرابوں کے ذخیرے۔ دعا دل سے مائی گئی تھی۔ اس لئے عالم اسباب میں اثر پذیر ہوئی ........... اور پھر مغل زادے کو فتح حاصل ہوئی جسے پوری دنیا کی عسکری تاریخ میں ایک کارنامے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
شہنشاہ ظہیر الدین بابر 49 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ محض ایک سیاسی طالع آزما تھا۔ اس لئے مغل سلطنت کی بنیادیں تو مضبوط کر گیا مگر اس کی فتوحات سے اسلامی نظام کو کوئی فائدہ نہیں پھنچا ۔مغل شہنشاه خودتو شراب و شباب سے تائب ہوگیا تھا مگر اس کا وارث نصیرالدین ہمایوں عیش دورت میں مبتلا رہتا تھا۔ نتیجتاً ایک اور طالع آزما شیر شاہ سوری بساط سیاست پر ابھرا اور اس نے ہمایوں سے پنجہ آزمائی کی ۔مغل شہنشاہ کے کمزور بازوتلوار کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔ انجام کاراسے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر ایران میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنی پڑی۔
شیرشاه بڑا جفاکش اور عادل حکمراں تھا مگر کاتب تقدیر نے اس کی عمر اور اقتدار کے خانے میں
بہت کم مدت تحریر کی تھی ۔ پھر بھی شیر شاہ سوری نے پانچ سال کے مختصر ترین دورحکومت میں بڑے حیران کن تعمیری کارنامے انجام دیئے۔ اگر وہ کچھ دن اور زندہ رہ جاتا تو سلطان شمس الدین التمش کے عہد رفتہ کی یاد تازہ ہو جاتی ۔۔۔ مگر۔۔۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

شیرشاہ کا جانشین سلیم شاہ کچھ زیادہ اہل ثابت نہیں ہوا، آخر آپس کی رنجشوں نے سوری خاندان کا خاتمہ کر دیا اور جنگجو قبيلہ اقتدار کی دنیا میں ہمیشہ کیلئے راندہ درگاہ قرار پایا۔
بساط سیاست کوغبار آلود پاکر مغرور شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں نے اپنے حریفوں کی کمزور بنیادوں پر ایک کاری ضرب لگائی اور اپنی فردوس گم شدہ کو دوبارہ حاصل کرلیا۔ہمایوں اپنے کردار اور عقائد کے اعتبار سے ایک بہتر انسان تھا..... مگر کارزارہستی میں وہ بہتر حکمراں ثابت نہیں ہوا۔ کثرت افیون نوشی نے  اس کی ذہنی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیا تھا۔ آخر ایک دن وہ مرگ ناگهانی سے دوچار ہوا اور بلند زینے کی سیڑھیوں  سے گر کر مر گیا۔
ہمایون کا بیٹا جلال الدین اکبر باپ کی موت کے وقت بہت کم سن تھا۔ اس لئے مذہبی اور دنیاوی تعلیم سے محروم رہا.. اسلام کے خلاف زہر افشانی کا موقع مل گيا۔ شیخ مبارک اور اس کے دونوں بیٹے ابوالفضل اور فیضی نے اکبر کے دل دماغ میں اپنی بد عقیدگی کا زہر اتارنا شروع کر دیا۔ ہندوستان کے بر ہمن بھی اس کے گرد سمٹ آئے۔ سیاست کی آڑ میں عجیب عجیب چالیں چلی گئیں۔ یہاں تک کہ اس کم عقل حکمراں نے اپنا مذہب دین الٰہی ایجاد کرلیا ۔۔۔۔۔ جاری ..........

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے