اسلامی مکاتب: موجودہ صورت حال, چیلینجزاور مستقبل کے خاکے قسط۲


اسلامی مکاتب: موجودہ صورت حال, چیلینجزاور مستقبل کے خاکے قسط۲

ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی
ڈائریکٹر الفاروق اکیڈمی, عمران گنج, صبرحد, جونپور
+91 9838368441

پورے ہندوستان بالخصوص دیار پورب کے دیہی علاقوں میں مسلمانوں کے ذریعہ درجہ پانچ تک چلائے جارہے نظام تعلیم اس وقت متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جن میں قانونی اصول وضوابط بھی ہیں اور انتظامی دشواریاں بھی, تعلیمی مسائل بھی ہیں اور طلبہ میں دل چسپیوں کا فقدان بھی, اور بھی بہت سے مسائل ہیں لیکن سب سے پہلے تعلیم سے راست جڑے مسائل پر بات آنی چاہیے.

مسلم گاؤوں میں موجود مکاتب کا ایک اہم موضوع قرآن کریم کی تعلیم تھی. قرآن کریم کی تعلیم ایک مسلم بچہ کے لیے نہ صرف مذہبی فریضہ ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور شخصیت کے پروان چڑھانے کا سب سے اہم وسیلہ بھی ہے. تین چار سال کے بچوں کے صوتی نظام کو متحرک اور فعال بنانے کے لیے عربی زبان سے بہتر کوئی زبان نہیں کیونکہ عربی زبان کے علاوہ دنیا کی کسی زبان کے حروف ہونٹوں سے لے کر اقصائے حلق تک ادا نہیں کیے جاتے. عمر کے اس نازک مرحلے پر قرآن کریم کے تجوید ومخارج سے بچہ کا پورا صوتی نظام حد درجہ مضبوط ہوجاتا ہے اور بچہ اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ زندگی کے اگلے مراحل میں دنیا کی کسی بھی زبان کی ادائیگی سیکھ سکے. لہذا دوسری قومی وبین الاقوامی زبانوں کے سیکھنے میں قرآن کریم کی تجوید کافی اہمیت کی حامل ہے. 

بچہ کی شخصیت کے پروان چڑھانے میں قرآن کریم کی تجوید کا دوسرا اہم پہلو قرآن کا ترنم ہے. قرآن کریم دنیا کی وہ پہلی نثری کتاب ہے جس پر نظم اپنے تمام تر ترنم کے ساتھ نثار ہے. یہ قرآنی لہجہ کا اعجاز ہے کہ اسے دس قراءتوں پر پڑھا گیا. انسانی دماغ کے نشو ونما میں ترنم کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی ماہر نفسیات ہاورڈ گارڈنر نے انسانی ذہانتوں کی نو مختلف اقسام میں Musical Intelligence کو مستقل ذہانت کا درجہ دیا ہے. بچہ کی دماغی افزائش میں ترنم کا کردار بہت اہم ہے. اس سے دماغ کے خلیوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے. یہی وجہ ہے کہ زبان سکھانے کی کتابوں میں Rhymes یعنی نظموں کی کثرت ہوتی ہے. ابتداء عمر میں نظموں کی مشقوں سے اس خاص ذہانت کی افزائش مقصود ہوتی ہے. اس زاویہ سے قرآن کریم ایک بیش بہا نعمت ہے جو نو نہالان امت کے ذہنی آفاق کو وسیع تر کرتی ہے. چنانچہ گذشتہ صدی کے مشہور فرانسیسی موسیقار ژاک ژیلبیر نے قرآن کے ترنم کو سنتے ہی اسلام قبول کرلیا تھا اور یہ کہا تھا کہ "یہ موسیقی کی دنیا کی کوئی بہت ہی اونچی چیز ہے۔ میں نے خود آوازوں کی جو دھنیں اور ان کا جو نشیب وفراز ایجاد کیا ہے، یہ موسیقی اس سے بھی بہت آگے ہے، بلکہ موسیقی کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے ابھی دنیا کو بہت وقت درکار ہے". قرآن کے ترنم کی اہمیت کو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تاکید کے ساتھ اپنے اصحاب کو بتائی کہ (ليس منا من لم يتغن بالقرآن. رواہ البخاری) ہم میں سے نہیں ہے وہ شخص جو قرآن کو ترنم سے نہ پڑھے. حاصل یہ کہ انسانی ذہانتوں کی پرورش میں قرآن کریم کی تجوید کی غایت درجہ اہمیت ہے.  

اب ذرا غور کریں کہ کیا ہمارے گاؤں کے مکاتب میں قرآن کریم کی تعلیم پر کما حقہ توجہ دی جارہی ہے. قرآن نہ صرف ہمارے اسلامی تشخص ووجود کے لیے لازمی عنصر ہے بل کہ ہماری نسلوں کی دو اہم ذہانتوں کو ترقی دینے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے. مکاتب میں قرآن کا موجودہ طرز تعلیم یقینا موجب افسوس ہے. مدارس میں چل رہے مکاتب اس سے مستثنی ہیں. اسی طرح گجرات, بنگلور اور ممبئی میں بعض تنظیموں کی قرآن کے تعلق سے کوششیں نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ لائق تقلید بھی.

آج بھی مکاتب میں قرآن کریم کی تعلیم میں انفرادی اسلوب تدریس حاوی ہے جب کہ کسی بھی مضمون کی اسکولی تعلیم میں اجتماعی درس کا نظام ضروری ہے. قرآن کی تعلیم کے انفرادی اسلوب میں قرآن کریم کی تکمیل کا کوئی منصوبہ نہیں ہوتا. بعض بچوں کا قرآن درجہ چہارم وپنجم تک مکمل ہوجاتا ہے اور بعض کا نہیں. اسی طرح اس میں بورڈ کا استعمال بالکل نہیں ہوتا جب کہ حروف کی تنہا اور ملاوٹ کی شکلوں کے علاوہ متعدد چیزیں بورڈ کی مدد سے بچوں کے ذہن پر بہتر طور پر نقش ہوسکتی ہیں. نیز تمام طلبہ کا ایک سبق نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کا سننا, سناکر مشق کروانا اور ہجے اور تجوید کے قواعد سمجھانا دشوار تر ہوتا ہے. ہمارے مکتبی نظام تعلیم میں بچوں کو خوب صورت لہجہ میں قرآن کریم سنانے کی اہمیت کا بالکل پاس نہیں رکھا گیا جب کہ کسی چیز کے پڑھنے سے زیادہ اثر انداز اس کا سننا ہے. خاص طور پر بچے جنہیں نقالی پسند بھی ہوتی ہے اور کسی لب ولہجہ کی نقل اتارنا ان کے لیے آسان بھی ہوتا ہے. حضور اکرم (ص) نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں فلاں صحابی سے قرآن سنوں. اسی طرح آپ (ص) صحابہ(رض) کو اپنے دل کش لہجہ میں قرآن سناتے بھی تھے. قرآن کریم کے الفاظ کو غور سے دیکھنا بھی چاہیے. اس سے دماغ کے کینوس پر اس کا نقشہ ابھرتا ہے جو ہمیشہ کے لیے برقرار رہتا ہے. قرآن کریم کا دیکھنا بھی عبادت ہے. امام غزالیؒ نے بہت سے صحابہ ؓ سے نقل فرمایا ہے کہ حضرات صحابہ مصحف دیکھ کر تلاوت کرتے تھے اورانھیں اس بات سے تکلیف وناگواری ہوتی تھی کہ کوئی دن قرآنِ پاک کو دیکھے بغیرگذر جائے. 

لہذا قرآن کریم کی تعلیم میں اجتماعی نظام تعلیم ہونا چاہیے اور باقاعدہ ایک مضمون کی طرح تکمیل تک کا سالانہ اور ماہانہ نظام ہونا چاہیے. تدریس کے وقت پڑھنے, لکھنے, سننے, سمجھنے اور بولنے یعنی سنانے کی بنیادی مہارتوں کو دھیان میں رکھا جانا چاہیے کیونکہ یہ تعلیمی سنتیں ہیں جو ہمیں معلم انسانیت سے حاصل ہوئی ہیں. اگر ہم قرآن کریم کی بہتر تجوید کے ساتھ تکمیل پر مکتبی نظام تعلیم میں قابو پاجائیں, تو یہ ہماری بہت بڑی حصول یابی ہوگی کیونکہ اس سے ہماری نسلوں کی ذہانتیں دیگر تعلیمی میدانوں میں پرواز کے قابل ہوں گی اور خیرالبشر (ص) کا یہ جملہ عملی پیکر میں دکھتا نظر آئے گا کہ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ کہ تم میں بہتر وہ ہوگا جو قرآن سیکھے گا اور سکھائے گا. یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں وہ شخصیات جو قرآن کریم کے مقاصد ومفاہیم کو اپنی زندگی کا موضوع بنائیں گی وہ عقل وادراک کے ہر پیمانے پر افضل ترین شخصیات ہوں گی. یہاں تک کہ اس کا ابتدائی معلم ومتعلم بھی اس کے تلفظ وترنم کی دولت سے یوں مالا مال ہوگا کہ مستقبل میں اس کے لیے کامیابی کی منزلیں منتظر رہیں گے. 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی مکتب کے معیاری ہونے کی خشت اول یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم اجتماعی نظام کے تحت سالانہ وماہانہ درسی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک مجود قرآن کے ذریعے دی جائے تاکہ بہتر تجوید کے ساتھ ہر طالب علم کا قرآن مکمل ہو سکے اور اس کی بنیادی ذہانتیں پروان چڑھ سکیں. 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

(جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے