کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: قسط 11

کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: قسط 11
کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: قسط 11

گزشتہ سے پیوستہ
قسط یاز دہم
آپ بیتی: احمد شجاعؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جذبہ ہو تو ایسا

معافی مانگ لینا یقینا بہت بڑی اور قابلِ اجر صفت ہے ؛لیکن معافی مانگنے کی عادت یعنی کسی کے سامنے خود کی انا کو مار کر جھک جانا، حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا ختم کرنے کی غرض سے سامنے والے کے سامنے خاموش ہوجانا اور دب جانا یہ سب بڑی مشکل سے آتا ہے اور ایسا کرنےوالے کی عزت کم بھی نہیں ہوتی  ؛بل کہ درحقیقت وہی بلندیوں کا مالک ہوتا ہے

جھک کے جو آپ سے ملتا ہوگا
اس کا قد آپ سے اونچا ہوگا

اس لیے اس صفت سے متصف ہونے کی از حد ضرورت ہے ؛کیوں کہ اس بھیڑ بھاڑ والی دنیا میں آج کل اکثریت اسی انا کی وجہ سے  تنہا نظر آرہی ہے

شکار اپنی انا کا ہے آج کا انساں
جسے بھی دیکھیے تنہا دکھائی دیتا ہے

ورنہ یہ ایسی صفت مادحہ ہے کہ اس کو اپنانے سے دنیا کے اکثر و بیشتر جھگڑے اور فسادات ختم ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ عزت و ذلت اللہ کے قبضے میں ہے۔ کسی کے نیچا دکھانے یا آپ کو بدنام کرنے یا نقصان پہنچانے کی ناقص کوشش سے آپ کی عزت میں کوئ کمی نہیں آئے گی ؛اس لیے کہ اگر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری کتاب پر یقینِ کامل ہو یعنی ایسا یقین کہ کوئی اسے  ڈگمگا نہ سکے تو پھر انسان ہمیشہ درگزر کرنے اور جھک جانے کو فوقیت دے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے: "و تعز من تشاء و تذل من تشاء" اور پھر سیرتِ نبویہؐ سے بھی ہمیں یہی درس ملتا ہے۔ اور جب سرکار دو عالمؐ کی تعلیم سامنے آگئی تو پھر سرِ تسلیم خم کرنا لازم ہوجاتا ہے

یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی

صلح و آشتی کا علم بردار مذہب اسلام ہمیں دو خاندانوں کو ملانے کی خاطر توریہ یعنی ذومعنیین الفاظ تک کے استعمال کی اجازت دیتا ہے تاکہ دو خاندانوں کا رشتہ برقرار رہے اور کسی طرح لڑائی  جھگڑا وجود میں نہ آئے۔ 
آج رضوان بھائ شاہ جہاں پوری نے اپنے ایک نہایت قریبی عزیز جناب خورشید صاحب کے بارے میں ایک بہت عجیب اور جذبہ صادق کی حیرت انگیز بات بتائی۔ کہ خورشید بھائ دو خاندانوں کو ملانے کی خاطر ستائیس سال سے اپنے چچا سے مستقل معافی مانگتے چلے آرہے ہیں کہ جب بھی ان کے پاس آتے ہیں بڑی عاجزی اور انکساری سے کہتے ہیں: "چَچَا جان! ہمیں معاف کردو! چَچَا جان ہمیں معاف کردو!" 
؛مگر ان کے چچا ماننے کو تیار نہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ شاید یہ ہم سے معافی مانگ رہا ہے تو ہم بڑے ہوگئے۔ لیکن خورشید بھائ یہ سب نہیں سوچتے کہ اگر چچا کی انا درمیان میں آرہی ہے تو ہم بھی کوشش نا کریں۔میں تو یہ بات سن کر حیران ہوگیا ہوں۔ کہ واقعی کمال ہے۔ جذبہ شوق ہو تو ایسا۔۔ اللہ اکبر! 

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

لیکن اس خالص لوجہ اللہ کوشش کا یہ نتیجہ بر آمد ہوا ہے کہ ان ستائیس سال کی کوشش کے بعد دونوں گھر والوں کا آنا جانا سا ہوگیا ہے۔ 

لیکن آج ہم بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے توجھگڑا ختم کرنے کی کوشش کرلی  تھی یا جب ہم غلطی پر نہیں ہیں تو کیوں معافی مانگیں یا وہ چھوٹا ہے تو معافی بھی وہ  مانگے۔ یا جھگڑے میں پہل اس نے کی تھی لہذا پہلے معافی مانگنے کا حق بھی اس کا ہے۔ اب تو میں اسے اپنے قدموں میں جھکا کر ہی دم لوں گا۔ اسے تو اب جھکنا ہی پڑے گا۔ وہ اور منہ مسور کی دال۔ آیا بڑا نواب اس کے سامنے جھکوں گا میں۔

ہم نے تو قرآن پاکِ کی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت یہ سبق حاصل کیا ہے کہ

بکھیرتے رہو صحرا میں بیج الفت کے
کہ بیج ہی تو ابھر کر شجر بناتے ہیں

اور جب انسان کو واقعتا یہ یقین ہوتا ہے کہ مجھے ایک ایک چیز کا حساب دینا ہے۔ میرے اپنے بھی تو معاملات ہوں گے کیوں نہ میں معافی میں پہل کرلوں تو پھر انسان کو دشمن سے بھی محبت ہوجاتی ہے۔ حبِ نبی کی یہی تو بات ہے کہ

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت__مری عادت کر دی

ورنہ

اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

اہلِ خانہ، اعزا و اقربا اور دوست و احباب کی خدمت میں ہدیہء تشکر

کورنٹائن کے ان ایام میں مسلسل سبھی کے لیے نام لے لے کر دعائیں کی ہیں۔ کیوں کہ آپ تمام کی دعاؤں کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ؛اس لیے ہمیشہ دعاؤں کا طالب رہوں گا

خدا! صلہ دے دعا کا، محبتوں کے خدا
خدا! کسی نے کسی کے لیے دعا کی ٹھی

خاص کر میرے ابی جان -اطال اللہ عمرہ- جن کی شفقت و محبت، اور بے پایاں دعائیں ہمیشہ میرے سائباں کی طرح ساتھ رہتی ہیں۔ اللہ پاک ان کو صحت و عافیت کے ساتھ عمر دراز عطا فرمائے!

والدہ عزیزہ! اللہ پاک آپ کو بھی صحت و عافیت کے ساتھ رکھے!  تمام بیماریاں دور فرمائے! اور ہم سب کو باہم ایک ساتھ رکھے

میرے اکلوتے بڑے اور پیارے بھائ! جن کی ہمہ وقت خصوصی توجہات میرے لیے صرف ہوتی ہیں۔ اللہ پاک آپ کا سایہ عاطفت دراز فرمائے اور خوب نوازے۔ اولاد صالحہ کی دولت سے بھائ کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشے!

سب سے خاص اور مشفق امِ رمشاء، جن کے احسانات اور لطف و عنایات نیز محبتوں کا سدا مقروض رہوں گا۔ ہر روز یہاں میری خیریت لینا ان کے لیے لازمی تھا۔ ماں کی شفقت و ممتا سے لے کر تمام خصوصیات آپ میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ رب کریم صحت و عافیت کے ساتھ عمر طویل بخشے۔ اور اولاد صالحہ کے ساتھ ساتھ دونوں جہاں کی خوشیاں عطا فرمائے

ہمشیرہ امِ سارہ! جن کی بے پناہ محبتیں اور عقیدتیں مجھ سے وابستہ ہیں۔ ہمہ وقت میری فکر اور میری تعریفیں۔ رب کریم آپ کی ساری پریشانی دور فرمائے اور خوب فراوانی عطا فرمائے اور سکون کی زندگی مقدر کرے

ہمشیرہ ام حمزہ! حد سے زیادہ نرم دل کی مالک۔ میرے لیے یہاں آنے پر سب سے زیادہ آنسو بہانے والی۔ نیک سیرت اور مجھ سے بے پناہ ربط رکھنے والی۔  رب کریم اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور خوب فراوانی عطا فرمائے اور سکون سے پُر حیات بخشے

ہمشیرہ ام معاذ! کورنٹائن سینٹر میں گھر کے بعد سب سے زیادہ آپ کی ہی کال آئی اور ہمیشہ فکر مندی ظاہر کی۔ بہت زیادہ محبت اور خیال رکھتی ہیں اور بہت پیار بھی۔ ماں جیسی شفقت اور محبت بہت زیادہ آپ میں موجود۔ رب کریم سکون بھری زندگی عطا فرمائے۔ اولاد کو نیک و صالح بنائے اور ساری پریشانیاں دور کرے نیز حاسدین کے حسد اور شریروں کی شرارت سے محفوظ رکھے

چھوٹی ہمشیرہ! محبت بھرا پہلا خط لکھنے والی۔ میرے لیے آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ بہت دعائیں کرنے والی۔ چھوٹی ہونے کی وجہ سے لڑائی ہوتی ہے ؛مگر اچھی ہے۔ اللہ پاک نیک و صالح بنائے اور مستقبل روشن کرے

اہلِ خانہ کے بعد تنِ تنہا جن کا ذکر کیا جائے ان کی فہرست بہت طویل ہے ؛اس لیے مختصرا سبھی کا میں شکر گزار ہوں۔  کیوں کہ

شدید دھوپ میں سارے درخت سوکھ گئے
بس اک دعا کا شجر تھا جو بے ثمر نہ ہوا

اور سب کے لیے دونوں جہاں کی سعادتوں اور فرحتوں کا طلب گار ہوں ہمیشہ کی طرح نیک خواہشات۔ یہاں پر میں نے سبھی کے لیے بے شمار دعائیں کی اور کر رہا ہوں۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔ آمین!

ہوسکتا ہے کہ صبح یہاں سے روانگی ہوجائے اس لیے کہ چودہ دن تو ہوچکے ہیں۔ اسی سبب سے موم  بتی کی روشنی میں یہ تمام سطور دیر رات گئے جلد از جلد لکھ رہا ہوں۔ اللہ پاک قبول فرمائے اور مجھے اپنا بنا لے۔ آمین 

مانگتا ہوں تجھ سے تجھ کو اے خدا
فضل فرما اے مرے____بار الٰہ
بہ وقت: 02:29/شب

سولہواں روزہ۔۔۔۔بہ روز: اتوار۔۔۔۔10/مئی/2020ء

رات  سونا  نہیں ہوا۔ دیر رات تک  ڈائری  لکھتا رہا۔  پھر فجر بعد کا وقت نویڈا کے ساتھیوں  کے ساتھ تعلیم کی نذر ہوگیا۔ جس میں  تقریبا ایک گھنٹے  تک قرآن کریم سے رشتہ مضبوط کرنے اور کچھ دیگر اہم موضوع پر ان کے سامنے بات کی۔ 
بات مکمل کرکے بھی سونے کا موقع نہیں ملا ؛رات ساڑھے بارہ سے لائٹ گئی ہوئی تھی۔ اس لیے لائٹ کا انتظار کرتے رہے۔ جب انتظار کی انتہا ہوگئی اور نیند کا نشہ سر چڑھ کر غنودگی طاری کرنے لگا تو اشراق پڑھ کر مصلے پر لیٹ گیا اور اسی طرح نیند آگئی۔ دو گھنٹے بھی نہیں سو سکا کہ  آنکھ کھل گئی۔ پھر چاشت پڑھ کر تلاوت قرآن کریم میں مصروف ہوگیا۔ لائٹ تھوڑی دیر کے لیے آئی اور عشا تک کے لیے غائب ہوگئی۔

موسم میں خنکی

قرآن کی تلاوت میں مصروف تھا کہ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ لائٹ بھی جاچکی تھی اس لیے باہر گیلری میں آکر قرآن پڑھنے لگا۔ تیز ہوا نے آندھی کی شکل اختیار کرلی اور دیکھتے  دیکھتے صاف فَضا کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا اور اور اپنی سیاہی سے ایسا ماحول کردیا کہ دیکھنے والا مغرب کا وقت گمان کرے۔ طوفانی بارش۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی کڑک نے مہیب سماں بنا دیا۔ لیکن میں اسی ڈگر پر تلاوت کرتا رہا۔ کیوں کہ مجھے یاد تھا کہ ایسے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف متوجہ ہوجایا کرتے تھے کہ کہیں ان بادلوں میں کوئ عذاب  چھپا ہوا نا ہو۔
 بالآخر کافی دیر بعد جاکر موسم معتدل ہوا ؛مگر خنکی برقرار رہی

آج بھی پیپر تیار ہونے کا بہانہ


ظہر بعد بہ مشکل تھوڑی دیر  سو پایا تھا کہ نویڈا کی جماعت کے ایک ساتھی فیضان بھائ نے آکر جگادیا  کہ مفتی صاحب! اپنا نمبر دے دیجیے! نمبر لینے کے بعد کہنے لگے کہ آپ پگڑی باندھ سکتے ہو۔ میں پگڑی باندھ کر گھر جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا آپ لائے ہو پگڑی۔ لاو میں باندھ دیتا ہوں۔ خیر پگڑی باندھی اور وہ خوشی خوشی میرے پاس سے چلے گئے ؛لیکن عجب اتفاق آج بھی یہ ساتھی نہیں جاسکے۔ اور انہیں یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ آپ کے پیپر تیار ہو رہے ہیں۔ شام تو ہوچکی ہے اب دیکھو کب جانا ہوتا ہے۔ اللہ پاک بہتر فیصلہ فرمائے 


جاری۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے