عید قرباں ایثار و قربانی کا عظیم مظہر

عید قرباں ایثار و قربانی کا عظیم مظہر

عید قرباں ایثار و قربانی کا عظیم مظہر 

 بقلم: عبيد الله شميم قاسمی 

    عشره ذی الحجہ شروع ہونے والا ہے، ذی الجحہ كے ابتدائی دس دن بہت ہی با بركت ايام ہيں،  خود قرآن كريم ميں الله رب العزت نے اس كو بيان كيا ہے، ﴿والفجر وليال عشر﴾ قسم ہے فجر كی اور دس راتوں كی، اكثر مفسرين دس راتوں سے ذی الحجہ كے ابتدائی دس ايام مراد ليتے ہيں۔
ذی الحجہ كا مہينہ اشهر حرم ميں سے ہے، زمانہ جاہليت ميں بھی عرب ان مہينوں كا احترام كرتے تھے، حتی كہ اگر كوئی شخص كسی كے والد كو قتل كرديتا تھا  تو مقتول كے ورثاء كی اس قاتل سے اشهر حرم ميں اگر ملاقات ہو جاتی تو اس كو معاف كرديتے تھے،  علامہ زمخشری نے اس سلسلے ميں اپنی تفسير ميں نقل كيا ہے:
وقد وافقت حجة الوداع ذا الحجة، وكانت حجة أبى بكر رضى الله عنه قبلها في ذى القعدة ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ يعنى أنّ تحريم الأشهر الأربعة هو الدين المستقيم، دين إبراهيم وإسماعيل، وكانت العرب قد تمسكت به وراثة منهما، وكانوا يعظمون الأشهر الحرم ويحرمون القتال فيها، حتى لو لقى الرجل قاتل أبيه أو أخيه لم يهجه، وسموا رجبا: الأصم ومنصل الأسنة، حتى أحدثت النسيء فغيروا فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ في الحرم أَنْفُسَكُمْ أى لا تجعلوا حرامها حلالا. تفسير الزمخشري (2/ 269)
امام رازي اشهر حرم كا معنی بيان كرتے ہوئے لكھتے ہيں: 
ومعنى الحرم: أن المعصية فيها أشد عقابا، والطاعة فيها أكثر ثوابا، والعرب كانوا يعظمونها جدا حتى لو لقي الرجل قاتل أبيه لم يتعرض له. تفسير الرازي (16/ 41) يعنی ان مہينوں ميں معصيت كا ارتكاب سخت سزا كا مستحق ہے، اسی طرح ان مہينوں میں طاعت اور عبادت كا ثواب بھي زياده ہے، اور عرب ان مہينوں كا  بہت احترام كرتے تھے، حتی کہ اگر كوئی شخص كسی كے والد كو قتل كرديتا تھا  تو مقتول كے ورثاء كی اس قاتل سے اشهر حرم ميں اگر ملاقات ہوجاتی تو اس كو معاف كرديتے تھے۔
اشهر حرم كا تذكره روايات ميں بھی آيا ہے، حجة الوداع كے موقع پر الله كے رسول ﷺ نے كئی خطبے دئيے اور سامعين كے دلوں ميں بات جاگزيں ہو جائے اس ليے آپ نے سامعين سے سوال كيا يہ كون سا مہينہ ہے، كون سا دن ہے، اور كہيں پر ان مہينو ں كو مطلق طور پر بيان كيا، مشہور مفسر امام ابن جرير طبري حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما كی روايت كو نقل فرماتے ہيں:
عن ابن عمر قال: خطب رسول الله ﷺ في حجة الوداع بمنًى في أوسط أيام التشريق، فقال: يا أيها الناس، إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والأرض، وإن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرًا، منها أربعة حرم، أوّلهن رجبُ مُضَر بين جمادى وشعبان، وذو القعدة، وذو الحجة، والمحرم. تفسير الطبري (14/ 234)
ذي الحجه كی ابتدائی دس راتيں اور ايام بہت ہی فضيلت كے حامل ہيں،  حضرت ابو ہريره رضی اللہ عنہ كی روايت   ہے، جو امام ترمذی نے نقل كيا ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ، وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ القَدْرِ»: «هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَسْعُودِ بْنِ وَاصِلٍ، عَنِ النَّهَّاسِ» سنن الترمذي (758)، باب ما جاء في العمل في أيام العشر. ان ایام میں روزہ رکھنا ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر ہے، اور راتوں میں قیام کرنا یعنی عبادت میں مشغول ہونا ہر رات کی عبادت شب قدر کے برابر ہے، نویں ذی الحجہ یعنی عرفہ کے دن کے روزے کی فضیلت کے لیے مستقل حدیث شریف میں آیا ہے،
اسی طرح ايک دوسری روايت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جسے امام ابو داود اور امام ترمذی نے نقل كيا ہے، اس ميں بھی ان ايام كی فضيلت بيان كی گئی ہے:  عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ» يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: «وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ» سنن أبي داود (2438)، باب في صوم العشر، سنن الترمذي (757) باب ما جاء في العمل في أيام العشر.
اسی طرح ان ايام كے كچھ احكام بھی ہيں، من جملہ ان ميں سے ان ايام ميں اپنے ناخن اور بال كو نہ كاٹنا بھی ہے، جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، امام مسلم نے اپنی صحيح ميں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا كی روايت کو نقل فرمايا ہے، 
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، يُحَدِّثُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا»، صحيح مسلم (1977) بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ، أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا.
امام نووی اس كی وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں: حديث ميں ناخن بال وغيره كاٹنے سے جو منع كيا گيا ہے اس كی حكمت يہ ہے كہ تمام اجزاء كامل  طور پر باقی رہيں تاكہ جہنم سے آزاد ہو جائيں۔
قال الإمام النووي: قال أصحابنا المراد بالنهي عن أخذ الظفر والشعر النهي عن إزالة الظفر بقلم أو كسر أو غيره والمنع من إزالة الشعر بحلق أو تقصير أو نتف أو إحراق أو أخذه بنورة أو غير ذلك وسواء شعر الإبط والشارب والعانة والرأس وغير ذلك من شعور بدنه، قال أصحابنا: والحكمة في النهي أن يبقى كامل الأجزاء ليعتق من النار

 عید قرباں كيا هے؟ 

عید قرباں یہ اس عظیم واقعہ کی یادگار ہے جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری میں اپنے چہیتے فرزند ارجمند حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے گردن پر چھڑی چلادی۔ ان باپ بیٹے نے فدائیت و جاں نثاری کی ایسی مثال قائم جسے اللہ رب العزت نے رہتی دنیا تک کے لئے یادگار بنادیا ۔ 
عید قرباں بنیادی طور پر حضرت ابراہیم و حضرت اسمعٰیل علیہما السلام کی قربانی کی تجدید اور اس کی سنت کی تکمیل ہے ۔ جیسا کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام نے سوال کیا یا رسول اللہ ! قربانی کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں اس میں کیا ملے گا تو آپ نے فرمایا کہ جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی ۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: «سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ» قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «بِكُلِّ شَعَرَةٍ، حَسَنَةٌ» قَالُوا: " فَالصُّوفُ؟ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «بِكُلِّ شَعَرَةٍ مِنَ الصُّوفِ، حَسَنَةٌ» سنن ابن ماجه (3127)
 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے دن اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ اور پیارا کوئی دوسرا عمل نہیں ہے ۔ قربانی کے جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ، بالوں ، کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے یہاں مقبول ہو جا تاہے ، لہٰذا تم قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ، إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا، وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا» سنن الترمذي (1493)
قربانی ایک مقدس دینی فریضہ ہے ، دنیا کے تمام مذاہب میں قربانی کا طریقہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور پایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  ﴿ولکل أمة جعلنا منسکاً لیذ کروا اسم الله علی مارزقهم من بهیمة الأنعام﴾ ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو ہم نے اس کو دیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آج تک ہر زمانہ اور قوم میں قربانی کی رسم ضرور پائی جاتی رہی ہے، کیونکہ جب زندگی ایثار و قربانی سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو شخصیت نکھرتی اور سنورتی ہے ۔ انسان کے اندر اگر ایثار وقربانی کا جذبہ نہ ہو تو وہ دوسروں کے لئے نفع بخش اور فائدہ مند نہیں بن سکتا ہے۔
قربانی كا ذكرحضرت آدم عليہ السلام سے لے كر ہر نبی اور قوم ميں ملتا ہے، قرآن كريم ميں ارشاد ربانی ہے: ﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ﴾، حضرت آدم عليه السلام  كے دو لڑكوں نے قربانی پيش كی، ايک كی قربانی قبول كی گئی اور دوسرے كی قبول نہيں ہوئی، جس كی قربانی قبول نہيں ہوئی اس نے كہا ميں تمہيں قتل كردوں گا، جس كی قربانی قبول ہوئی تھی اس نے كہا: الله تعالی متقيوں كي قربانی قبول كرتا ہے۔ معلوم ہوا كہ عمل كی قبوليت كے ليے تقوی اصل ہے، اسی وجہ سے ارشاد باری تعالی ہے: ﴿لن ینال الله لحومها ولا دمائها ولاکن یناله التقوی منکم﴾ اللہ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی اس کا خون پہونچتا ہے ، اللہ کے پاس تو صرف تمہارا تقویٰ پہونچتا ہے ، اس آیت کریمہ میں قربانی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ محض گوشت کھانے یا کھلانے سے یا اس کا خون گرنے سے تم اللہ کی رضا حاصل نہیں کر سکتے ہو، بلکہ اس کے یہاں تو دل کا تقویٰ اور ادب پہونچتا ہے کہ تم کس خوشدلی اور جوش محبت کے ساتھ قربانی ادا کرتے ہو۔
حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پر غور کیجئے !پوری زندگی جہد مسلسل ، ایثار و قربانی اور ابتلاء و آزمائش سے عبارت نظر آتی ہے ۔ عمر بھر توحید کی دعوت دینے والے اللہ کے برگزیدہ نبی کو کون کون سی مصیبتیں نہ جھیلنی پڑیں، ہر امتحان میں کامیاب و کامراں ہوئے ۔

 قربانی کیا ہے؟

 قربانی صرف جانوروں کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ قربانی نام ہے اپنے وجود کو خدا کے حوالہ کرکے اپنی عبدیت کے اظہار و اقرار کا ، قربانی نام ہے خواہشات نفس کو دبا کر اللہ کے ہر حکم پر راضی برضا رہنے کا ، قربانی ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ہم اپنی آرزؤں اور تمناؤں کو ، خوشیوں اور دلچسپیوں کو اپنے جذبات ا ور ارادوں کو خدا کے حکم کے تابع کر دیں۔ ایک بندہ مومن کی پوری زندگی ایثار و قربانی سے لبریز ہونی چاہئے، روز مرہ کے تمام تر معاملات میں مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ، اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھال لینا ہی اصل قربانی ہے ،عید قرباں ہمیں یہی پیغام دیتا ہے ، سنت ابراہیم کا یہی مقصد ہے۔
 اب ذرا اپنی قربانیوں کا بھی جائزہ لیں ، محاسبہ کر لیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم ایک قربانی کا فریضہ ادا کرکے باقی تمام قربانیوں سے اپنے آپ کو آزادی حاصل کرلیتے ہیں ،ذرا قرآن کی آیت کریمہ پر ایک مرتبہ پھرغور کیجئے ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ﴿لن ینال الله لحومها ولا دمائها ولاکن یناله التقوی منکم﴾  قرباني كا مقصد تقوي كا حصول ہے، اس کے ذریعہ بندہ کے دل میں صلہ رحمی ، بھائی چارگی اور ایثار و قربانی کی صفت پروان چڑھتی ہے ۔ اپنی ضرورتوں کو دوسروں پر ترجیح دینا ، دوسروں کے فائدے کو اپنے اوپر مقدم رکھنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے ، جس سے سماج میں خیر سگالی اور اخوت و محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں ، قربانی بڑی بیش بہا دولت ہے ،بغیر ایثار و قربانی کے کوئی انسان خواہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا ۔ 
یہ عقیدہ توحید کا وہ چراغ ہے جس سے روشنی حاصل کر کے انسان اپنی عبدیت کا مکمل اعتراف و اظہار کرکے اللہ کی ربوبیت کا کامل یقین کرتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کے تابع کر دیتا ہے۔ قربانی روح کو بیدار کرتی ہے ، عقیدہ توحید کے جذبات کو فروزاں رکھتی ہے ، اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو راہ حق میں نچھاور کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ۔
اس کائنات میں تسلیم و رضا مندی کے بےشمار واقعات رو نما ہوئے ہیں، محبت و خلوص کی لاکھوں داستانیں صفحات تاریخ پر درج ہوں گی، مگر شاید سینۂ گیتی پر تسلیم و رضا، ایثار و قربانی، خلوص و محبت اور خدا دوستی کا ایسا واقعہ منظر عام پر نہ آیا ہوگا جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی جذبۂ جانثاری و اطاعت شعاری کا حسین مظہر ہے۔
 *قربانی کا واقعہ آیات قرآنی کی روشنی میں: 
دل اگر نور ایمانی سے معمور ہو اور جذبۂ روحانی سے روشن ہو جسکا ظاہر معرفت خداوندی سے مزین اور جسکا باطن محبت و اطاعت اور تسلیم و رضا سے منور ہو تو خدا کی محبت میں ہر چیز کا لٹانا آسان ہوجاتا ہے
بات کہنے میں بڑی آسان لگتی ہے کہ رضائے الٰہی کےلیے ایک باپ نے اپنے اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلادی۔ تصورات کی دنیا میں یہ امر مشکل ہی نہیں ناممکن ہے باپ جب چھیاسی سال کا بوڑھا ہو ابھی تک اولاد سے محروم ہو ﴿رب هب لي من الصالحين﴾ جسکی دعا بارگاہ ایزدی میں ہمیشہ جاری ہو اچانک اللہ پاک اسے ﴿فبشرناه بغلام حلیم﴾ کے ذریعے ایک بردبار فرزند کی خوشخبری سناتے ہیں، پر اس خوشخبری کے ساتھ یہ بات معلوم نہیں تھی کہ یہی ایک کھٹن امتحان کا سبب بھی بنیں گے جب ارمانوں اور تمناؤں سے مانگا ہوا بیٹا ہونہار، خدمت گزار، فرمانبردار بن کر ابھرا تو خواب میں اسکو ذبح کرنے کا حکم ملا 《فلما بلغ معه السعي قال يٰبني إني اري في المنام》 ذبح کا حکم اس وقت دیا جارہا ہے جب کہ یہ چھیانوے سالہ بوڑھے باپ کے سہارے کے قابل تھا اب وقت آچکا تھا کہ پرورش کی مشقتوں کا بدلہ خدمت و احسان سے عطا کرے پر قدرت پر خدائی حکم کے آگے سرنگوں ہوکر کہا ﴿أني اذبحك﴾ مولی نے بندہ کو آزمایا بندہ نے بیٹے کو آزمایا اور حکمت عملی کو اپناتے ہوئے پوچھا ﴿فانظر ماذا ترى﴾ باپ رائے طلب بھی نہیں کرپاتا بیٹا ذبح پر آمادگی ظاہر کردیتا ہے یہ خاندان نبوت کی اطاعت کی علامت تھی خلیل اللہ کی فرزندی اور ہاجرہ جیسی خدا ترس خاتون کی دعا تھی اور اس بڑھ کر خدا نے انکی پشت میں سید الانبیاء و المرسلين کا نور مبارک جلوہ افروز تھا یہ اسی کے برکات تھے کہ بلا تذبذب و بلا تردد برجستہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں
﴿یٰابت افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء الله من الصابرين﴾
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آداب فرزندی
کائنات کے وجود کے بعد شاید چشم فلک یہ منظر پہلی بار دیکھ رہا ہوگا کہ ایک حقیقی باپ اپنے اکلوتے فرزند کے حلقوم پر چھری چلا رہا ہے عالم کون و مکان پر سکوت طاری ہے، آسمان ششدر ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ محو حیرت ہے ۔
بالآخر جنت سے مینڈھا لایا گیا اور اس کو ذبح کیا گیا، معلوم ہوا کہ قربانی کی اصل روح جان کی قربانی ہے، اور یہی جذبہ کار فرما ہونا چاہیے، اللہ تعالی ہمیں اخلاص کے ساتھ قربانی کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے