ذی الحجہ کے عشرۂ اول میں بال اور ناخن کاٹنے و نہ کاٹنے والے عمل کا مسئلہ



ذی الحجہ کے عشرۂ اول میں بال اور ناخن کاٹنے و نہ کاٹنے والے عمل کا مسئلہ

⁦✍️⁩ حافظ محمود احمد عرف عبد الباری محمود

حامدا و مصلیا و مسلما!
محترم قارئین! ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد ہی سب سے پہلے جو عمل ہماری طرف متوجہ ہوتا ہے وہ ہے کہ 
اس کے عشرۂ اول میں بال اور ناخن کاٹیں یا نہ کاٹیں؟ تو اس بارے میں صحیح یہی ہے کہ 
جن لوگوں پر قربانی واجب ہے یا ان کا نفلی قربانی کا ارادہ ہے تو وہ لوگ ماہِ ذو الحجہ/ ذی الحجہ کا چاند دکھ جانے کے بعد سے لے کر اپنی قربانی کرلینے تک اپنے بال و ناخن نہ کاٹیں؛ اس لیے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ» (صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا)
”جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بال اور ناخن کو نہ کاٹے۔“
اسی طرح حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں: «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا» (صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا)
”جب دس دِن (ذی الحجہ کا عشرۂ اول) آ جائیں تو جس کے پاس قربانی کا جانور ہو اور وہ قربانی کرنا چاہتا ہو تو وہ نہ بال کاٹے اور نہ ناخُن تراشے۔“
ایک اور روایت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا»‌ (صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا)
”جب (ذی الحجہ کے شروع کے) دس دِن آ جائیں اور تُم میں کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال اور اپنے جِسم میں سے کچھ نہ کاٹے۔“
اور ایک روایت میں الفاظ ہیں:
«مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ» (صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَضَاحِيِّ، بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا)
”جس کے پاس ذ بح کرنے کے لئے کوئی ذبیحہ ہو تو جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے، وہ ہرگز اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، یہاں تک کہ قربانی کرلے۔“
ایک حدیث میں ہے:
«حَدَّثَنَا  عَمْرُو بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عَمَّارٍ اللَّيْثِيُّ، قَالَ: كُنَّا فِي الْحَمَّامِ قُبَيْلَ الْأَضْحَى، فَاطَّلَى فِيهِ نَاسٌ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَمَّامِ: إِنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَكْرَهُ هَذَا، أَوْ يَنْهَى عَنْهُ، فَلَقِيتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، هَذَا حَدِيثٌ قَدْ نُسِيَ وَتُرِكَ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ، زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمَعْنَى حَدِيثِ مُعَاذٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو» (صحيح مسلم: كتاب الْأَضَاحِيِّ، بَابُ نَهْيِ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَشْرُ ذِي الْحِجَّةِ وَهُوَ مُرِيدُ التَّضْحِيَةِ، أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعْرِهِ أَوْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا)
’’ابواسامہ نے کہا: مجھے محمد بن عمرو نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عمرو بن مسلم بن عمارہ لیثی نے حدیث بیان کی ، کہا:  عیدالاضحیٰ سے کچھ پہلے ہم حمام میں تھے، بعض لوگوں نے چونے سے اپنے بال صاف کیے، اہل حمام میں سے کسی شخص نے کہا: سعید بن مسیب اس فعل (عیدالاضحیٰ کی نماز پڑھنے اور قربانی کرنے سے پہلے جسم پر سے بال وغیرہ کاٹنے یا مونڈنے) کو مکروہ قرار دیتے ہیں یا اس سے منع کرتے ہیں۔ میری سعید بن مسیب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے اس بات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! یہ حدیث بھلا دی گئی اور ترک کردی گئی ہے۔ (یہ پابندی ملحوظ نہیں رکھی جاتی ویسے) مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ۔ ۔ ۔ آگے محمد بن عمرو سے معاذ کی حدیث کے ہم معنیٰ حدیث بیان کی۔‘‘

فائدہ: ان احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں قربانی کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذو الحجہ/ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔ لہٰذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو تو ماہِ ذی القعدہ کے آخر میں فارغ ہوجائیں۔
اور جو حضرات قربانی نہ کریں (یعنی جن پہ قربانی واجب نہ ہو اور وہ نفلی قربانی کا ارادہ بھی نہیں رکھتے ہیں) تو ان کے لئے بال وناخن سے متعلق یہ استحبابی ممانعت نہیں ہے، یعنی ان کے لئے ان چیزوں کے کاٹنے سے اجتناب مستحب نہیں ہوگا؛ کیونکہ علت استحباب مفقود ہے (جانور کی قربانی کا جسم سمیت بال وناخن کی طرف سے بھی فدیہ ہونا) ہاں اگر وہ بھی بال ناخن کاٹنے سے پرہیز کریں اور قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کریں تو مشابہت کی وجہ سے ممکن ہے انہیں کچھ ثواب مل جائے، تاہم اصلاً ان کے لئے کوئی استحبابی فضیلت ثابت نہیں ہے۔ (دیکھیں: احسن الفتاویٰ: ج7، ص497)

ایک شبہ اور اس کا ازالہ:

بعض حضرات قربانی نہ کرنے والوں کے لئے بھی بال وناخن وغیرہ سے اجتناب کو اسی طرح مستحب کہتے ہیں جیسے قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے۔
اور استدلال میں درج ذیل روایات پیش کرتے ہیں۔
(1) «حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى، ‏‏‏‏‏‏أَفَأُضَحِّي بِهَا قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» (سنن ابي دائود: كِتَابُ الضَّحَايَا، بَابُ مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْأَضَاحِيِّ، رقم الحدیث: 2789۔ حديث حسن)
”حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں)  بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔“

تنبیہ: شیخ البانی صاحب کے نزدیک یہ حدیث عیسیٰ کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، جبکہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر رحمہ اللّٰہ صدوق ہیں، اور اسی وجہ سے شیخ مساعد بن سلیمان الراشد نے احکام العیدین للفریابی کی تحقیق وتخریج میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

(2) «أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، وَذَكَرَ آخَرِينَ: عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ  عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ: أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ» سنن النسائی: كِتَابُ الضَّحَايَا، بَابُ مَنْ لَمْ يَجِدِ الْأُضْحِيَّةَ، رقم الحدیث: 4365. حديث حسن)
’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجهے یوم الاضحٰی کو عید کا حکم دیا گیا ہے اسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا آپ مجهے بتلائیں کہ اگر میں قربانی کے لیے مونث دوده دینے والی بکری کے سوا نہ پاوں تو کیا اس کی قربانی کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، لیکن تم اپنے بال اور ناخن تراش لینا اور اپنی مونچھیں کاٹ لینا اللہ عزوجل کے ہاں تمہاری یہ قربانی ہوجائے گی۔‘‘
تنبیہ: شیخ البانی صاحب نے ’’عیسیٰ بن ہلال صدفی‘‘ کو مجہول قرار دے کر اس حدیث کی تضعیف کی ہے۔ جب کہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر رحمہ اللہ ’’صدوق‘‘ ہیں۔ دیکھئے: ”أحکام العیدین للفریابی“ تحقیق مساعد الراشد حدیث رقم 2۔

شبہ:
ان احادیث سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کے بعد ہی بال وناخن وغیرہ کٹوائیں۔
ازالہ:
اس بارے میں مفتی شکیل منصور قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’احادیث مذکورہ کا یہ معنیٰ نکالنا بالکل ہی غلط وناقص ہے۔ اس لیے کہ ان احادیث کا مفاد ومفہوم صرف اس قدر ہے کہ جس شخص کو قربانی نہیں کرنی ہے اس پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ ان دس دنوں میں ناخن وغیرہ نہ کاٹیں خواہ اس نے مثلاً پانچ ذو الحجہ کو ہی ناخن کاٹے ہوں، لیکن دس کو دوبارہ کاٹ لے تو اسے قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ دس سے پہلے رکے رہیں اور قربانی کے بعد کٹوائیں! 
اور جس شخص کو قربانی کرنی ہے اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ قربانی کے بعد بال وغیرہ کٹوائے، اگر چاہتا ہے تو کاٹ لے وگرنہ اس پر پابندی نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قربانی نہ کرنے والے شخص کو بال وناخن وغیرہ کٹوانے سے اجتناب کی ممانعت کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ یہ ممانعت استحبابی صرف قربانی کرنے والوں کے لئے ہے۔ 
ہاں اگر غریب شخص قربانی کا اجر وثواب حاصل کرنے کا خواہاں ہو تو اسے چاہیے کہ عید الاضحٰی کے روز اپنے بال وناخن وغیرہ تشبہ بالمضحین میں کاٹ چھانٹ لے، چاہے وہ یکم ذی الحجہ تا دس ذی الحجہ اپنا وغیرہ کاٹ چکے ہوں! ممکن ہے اس تشبہ بالمضحین کی وجہ سے اللہ انہیں بھی «فَلَا يَمَسَّنَّ مِنْ شَعَرِهِ وَلا مِنْ بَشَرِهِ شَيْئًا» پر عمل کے ثواب میں شریک کرلیں، جیسے مضحی کو محرم بالحج سے تشبہ کی وجہ سے شریک ثواب کردیئے ہیں، لیکن غیر مضحی کے لئے بال وناخن وغیرہ سے اجتناب کا یہ حکم استحبابی نہیں ہے۔ فافھم! واللہ اعلم بالصواب۔“ (دیکھیں: عشرہ ذی الحجہ میں بال و ناخن کاٹنے کا حکم؟ از مفتی شکیل منصور القاسمی۔ صدر مفتی سورینام جنوب امریکہ)

نوٹ: اگر عازمِ قربانی یا کوئی بھی بھول کر اپنے بال اور ناخن کو تراش لے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں، البتہ جان بوجھ کر ایسا کرلینے کی صورت میں اللہ پاک سے استغفار کرے۔ چنانچہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں: «إذَا ثَبَتَ هَذَا، فَإِنَّهُ يَتْرُكُ قَطْعَ الشَّعْرِ وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، فَإِنْ فَعَلَ اسْتَغْفَرَ اللَّهَ تَعَالَى. وَلَا فِدْيَةَ فِيهِ إجْمَاعًا، سَوَاءٌ فَعَلَهُ عَمْدًا أَوْ نِسْيَانًا» (المغني لإبن قدامه : كِتَابُ الأَضَاحِيِّ، مَسْأَلَةٌ: أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَدَخَلَ الْعَشْرُ)
’’جب یہ ثابت ہوگیا ہے تو وہ نہ بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے۔ لیکن اگر کسی نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ سے استغفار (توبہ) کرے۔ اور (بال و ناخن کاٹنے کے عمل کو) جان بوجھ کر کیا ہو یا بھول کر اس میں بالاتفاق فدیہ نہیں ہے۔“

اور علامہ ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: «لَوْ فَعَلَ الْإِنْسَانْ هَذَا أَيْ أَخَذَ مِنْ شَعْرِهِ، أَوْ ظُفْرِهِ، أَوْ بَشْرَتِهِ عَلَى وَجْهِ الْعَمَدِ فَإِنَّهُ لَا يَمْنَعُ مِنَ الْأُضْحِيَّةِ، لَكِنَّهُ يَكُونُ عَاصِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِذَا أَخَذَ هَذَا مُتَعَمِّدًا» (مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين: ج25، ص153) 
’’اگر کسی نے جان بوجھ کر اپنے بال یا ناخن یا چمڑا کاٹا ہے تو وہ قربانی کرنے سے نہیں رکےگا لیکن اس کا جان بوجھ کر ایسا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے روگردانی ہے (لہٰذا استغفار کرے)۔‘‘

ماہِ ذو الحجہ/ ذی الحجہ کے عشرۂ اول کے دیگر اعمال جاننے و پڑھنے کے لئے ملاحظہ کریں راقم الحروف کا رسالہ ’’ماہِ ذو الحجہ/ ذی الحجہ اور اس کے فضائل و احکام‘‘

✍️ خاکپائے اکابر اہل السنّۃ والجماعۃ  علمائے دیوبند: حافظ محمود احمد عرف عبد الباری محمود

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے