پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے


پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

ریان داؤد

سیہی پوراعظم گڑھ

پندرہ اگست کو ہمارا ملک تقریبا ایک صدی کی غلامی کے بعد انگریزوں کی زنجیروں سے آزاد ہوا ہماری وفاشعار سرزمین نے عیارومکار انگریز قوم کو اپنے باوفا سپوتوں کے ذریعہ ملک سے باہر نکال پھینکایہی وجہ ہے کہ ہر سال جب یہ مبارک دن آتا ہے تو یہا کا ہر فرد خوشی و مسرت سے معمور ہوکر بزبانِ حال ترانۂ آزادے گنگنانے لگتا ہے ملک کا چپہ چپہ ہندوستانی ترنگے جھنڈے سے خوشنما کردیا جاتا ہے شہر ہو یادیہات،سڑک ہویامکانات، غرضیکہ ہرطرف اس جھنڈے کی خوشنمائی ظاہر ہونے لگتی ہے ،اس یوم مسرت کے آنے کیوجہ سے بچے ہوں یا بوڑھے،تاجر ہوں یا مزدور،حاکم ہوں یا محکوم،اس سے بھی آگے بڑھ کر ہندو ہوں یا مسلمان،سکھ ہوں یا عیسائی،غرضیکہ ہر ہندوستانی کی زبان ترانۂ آزادی سے تربہ تر ہوجاتی ہے اس میں شک نہیں ہے کہ یہ یوم مسرت بہت ہی آسانی کے ساتھ نہیں آیا ہے بلکہ اس کیلئے بیشمار قربانیاں دی گئیں لاکھوں انسانوں کے مقدس لہو سے یہ سرزمین لالہ زار ہوئی ان شہدائے قوم نے اپنے خون جگر سے پہاڑوں،دریاؤں،میدانوں کی عطر بیزی کی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کی ان مجاہدین آزادی کی فہرست میں صف اول میں اپنی جگہ بنانے والے مسلمانوں کی قربانیاں دوسری قوموں سے کہیں زیادہ ہیں 

تاریخ کے اوراق اس حقیقت کو آشکارا کرتے ہیں کہ اس ملک کی تحریک آزادی صرف مسلمانوں ہی کی وجہ سے قائم تھی جس میں نصف صدی تن تنہا دوسری قوموں کو انتظار کئے بغیر مسلمان اپنے وطن کی آزادی کیلئے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے اور مسلمانوں نے اپنے عزم و استقلال سے یہ ظاہر کردیا تھا کی یہ ملک کسی دوسری قوم کیلئے بہت آسانی سے سازگار نہیں ہوسکتا اس بات کا اقرار خود انگریز کو بھی ہوچکا تھا کہ جب تک مسلمانوں کے قائدین(علمائے اسلام)اور ان کی آسمانی کتاب(قرآن) باقی رہے گی یہاں ہمارا چین سے بیٹھنا دشوار ترین عمل ہے انگریز لکھتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے بیدار اور جانباز قوم مسلم قوم ہے اور جنگ آزادی صرف مسلمانوں کی وجہ سے قائم ہے مسلمانوں میں جب تک جڈبۂ جہاد ہے اس وقت تک اس ملک میں حکومت کرنا محال ہے اس لئے اس کے اندر سے جذبۂ جہاد کو ختم کرنا ضروری ہے چنانچہ اس تجویز کے مطابق تین لاکھ قرآن مقدس کے نسخے جلائے گئے 1864ء سے 1867ء تک چودہ ہزار علماء کو تختہ دار پر چڑھایاگیا دلی کے چاندنی چوک سے خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں حتی کہ علمائے کرام کو خنزیر جیسے ناپاک جانور کی کھال میں بند کرکے جلتے ہوئے تنوروں میں ڈالا گیا لاہور کی شاہی مسجد کے صحن میں انگریز وں نے پھانسی کا پھندا بنایا تھا اس میں ہر دن تقریبا اسّی اسّی کو پھانسی دی جاتی تھی یہ جنگ آزادی کی ایک مختصر سی جھلک تھی ورنہ کتنے واقعات و حالات ہیں جن سے دل پارہ پارہ ہوجاتا ہے خواہ بالاکوٹ کی پہاڑیوں پر پائی جانےوالی سرخی ہو یا شاملی کے میدان کی لالہ زاری یامالٹا کی بامشقت اسیری حاصل یہ ہے کہ 

داستان غم اگر ہم سنانے لگیں گے

تو پتھر بھی آنسو بہانے لگیں گے

1900ء تک جنگ آزادی میں صرف مسلمان ہی تھے جو اپنے رہنماؤں کی قیادت میں سربکف ہوکر اپنی جان وطن کی آزادی کیلئے قربان کررہے تھے اور ملک کی آزادی کیلئے مختلف تحریکیں چلاکر انگریز جیسی بری قوم کو ملک بدر کرنا چاہتے تھے تحریک بالاکوٹ،تحریک ریشمی رومال وغیرہ اس کی آئینہ دار ہیں مگر ہر جگہ اپنوں ہی کیوجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ورنہ چند ہی سال میں انگریزوں کا وجود اس سرزمین سے ختم ہو گیاہوتا بالخصوص تحریک ریشمی رومال وہ ہمہ گیر تحریک تھی کہ اگر کامیابی سے ہمکنار ہوجاتی تو یہ ملک آج ممالک اسلامیہ کا ایک عظیم ملک شمار ہوتا مگر

قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند

دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا

آزادئ ہند کے 70 سالہ دور میں کم وبیش ہر حکومت میں ایسے افراد ضرور رہے ہیں جن کو اس ملک کی جمہوریت،یکجہتی اور تمام قوموں کے درمیان پائی جانے والی محبت و ہمدردی کے کبھی بھی پسندیدہ نہیں تھے وہ لوگ ہمیشہ قوم ومذہب کے نام پر  یہاں کی متحد اقوام کے شیرازے کو منتشر کرنے میں اہنا بدترین رول ادا کرتے رہے اور اس عظیم ملک کی تخریب کاری کرکے پورے عالم میں بدنامی کا سامان مہیا کیا 

اخیر میں ہم موجودہ حکومت سے پوری ہمدردی سے التماس کرتے ہیں کہ کم ازکم یہ حکومت اس کا ضرور لحاظ رکھے کہ آئندہ کوئی ایسا واقعہ نہ سرزد ہوسکے جو ہمارے ملک کی یکجہتی،باہمی ہمدردی کیلئے بدنماداغ ثابت ہو اور دوسرے ممالک ہمارے اس عظیم ملک کو بری نگاہ سے دیکھیں ¤

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے