ہدیہ محرم:فضائل محرم الحرام قسط دوم

ہدیہ محرم:فضائل محرم الحرام قسط دوم

قسط دوم

از قلم: محمد ساجد سدھارتھ نگر ی

جامعہ فیض ھدایت رام پور (یو پی)
Mob. 9286195398

فضائل محرم الحرام:

     محرم کا معنی ہے معظم ، مکرم ا ور معزز۔    زمانہ جاہلیت ہی سے لوگ اس مہینے کی تعظیم و تکریم کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس کی فضیلت واہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں اضافہ کیاہے بیشتر اہم اور انتہائی سبق آموز واقعات اور حادثات اسی مہینے میں پیش آیے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قل قتال فیہ کبیر۔ آپ فرما دیجئے کہ اس میں لڑائی بڑا گناہ ہے۔ اسلامی سال کی ابتدا کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسی مہینے کا انتخاب فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مہینے میں ھجرت کا ارادہ فرمایا اور بعض روایات میں ہے کہ محرم الحرام "اللہ کا مہینہ" ہے۔ نیز شرع کے بعض اعمال اسی مہینے کے ساتھ مخصوص ہیں۔  

عاشوراء کا روزہ:

      محرم الحرام کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے شریعت مطہرہ میں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم ہے اور اس روزے کو بڑی فضیلت اور اہمیت حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: وافضل الصیام بعد شھر رمضان صیا م شھر اللہ المحرم.رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل  اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے۔ (مسلم شریف ج: 2.ترمذی شریف ج:1) ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: من صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما۔ (غنیہ الطالبین۔الترغیب والترہیب) ترجمہ: جس شخص نے محرم الحرام کے دن کا روزہ رکھا اس نے پورے مہینے کا روزہ رکھا۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ رمضان المبارک کے بعد میں کس دن کا روزہ رکھوں تو آپ نے فرمایا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میں حاضر تھا تو میری موجودگی میں ایک شخص نے بعینہ یہی سؤال کیا تھا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے بہتر تمھارے لیے محرم الحرام کا روزہ ہے کیونکہ محرم الحرام کا مہینہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی تھی اور آیندہ بھی اس میں ایک قوم کی توبہ قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی شریف۔ ج:1)ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وصیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ۔(مسلم شریف جلد:1) ترجمہ: مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ سال گزشتہ کے گناہوں کےلئے کفارہ ہے یعنی جو شخص عاشوراء کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے سال گزشتہ کے گناہ معاف فرما دیں گے۔ حضرت ابنِ عباس رض نے فرمایا: ما رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتحری صیا م یوم فضلہ علی غیرہ الا ھذاالیوم یوم عاشوراء وھذا الشھر یعنی رمضان (بخاری ج1 مسلم شریف ج 1) ترجمہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عاشورہ اور رمضان المبارک کے روزوں سے زیادہ کسی اور روزے کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اس کے متعلق استفسار فرمایا چنانچہ لوگوں نے کہا کہ اس دن چونکہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم سے بنی اسرائیل کو نجات دےکر فرعون اور اس کے ہم نواووں کو دریا میں غرق کیا تھا لہذا اس کے شکریے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے مقابلہ میں ہم موسی کی اتباع کے زیادہ حق دار ہیں۔ اس کے بعد سے آپ نے بھی اس کا اہتمام کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ (بخاری شریف) ہر چند کہ اس دن کے روزے کی فرضیت رمضان المبارک کے روزوں کے فرض ہوجا نے کے بعد ختم ہو گئی مگر استحباب باقی ہے۔

محرم کے روزوں کی تعداد

    محرم کا روزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی دن رکھا ہے مگر مزاج نبوت شناس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب آپ سے کہا کہ یارسول اللہ آپ نے ہمیں یہود کی مخالفت کا حکم فرمایا ہے اور عاشوراء کا روزہ رکھنے میں ان سے مشابہت ہورہی ہے تو  آپ فرمائیں کہ ہم کیا کریں۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا۔ فاذا کان العام المقبل ان شاءاللہ صمنا الیوم التا سع۔ (مسلم شریف) ترجمہ: آئندہ سال سے ان شاءاللہ ہم نو تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ آیندہ سال کے آنے سے قبل ہی آپ کا وصال ہوگیا۔ مسندِ احمد میں آپ کا ارشاد گرامی ہے:صوموا یوم عاشوراء وخالفو فیہ الیہود وصوموا قبلہ یوما او بعد ہ یوما۔ (مسندِ احمد ج 1) ترجمہ: عاشوراء کا روزہ رکھنے میں یہود کی مخالفت کرو اس طرح کہ ایک روزہ اس سے پہلے یا بعد میں بھی رکھ لیا کرو۔ اسی لیے بعض فقہاء نے فقط عاشوراء کے روزے کو مکروہ لکھا ہے لہذا بھتر ھے کہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملا لیا جائے۔ (ردالمحتار ) 

یوم عاشوراء کا دوسرا عمل

      حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من وسع علی نفسہ واہلہ یوم عاشوراء وسع اللہ تعالیٰ علی سائر سنتہ۔(الا ستذکار لابن عبد البر ج3) ترجمہ: جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اور اہل وعیال کے اوپر وسعت کرے گا یعنی اپنی استطاعت کے بقدر حلال آمدنی سے اپنے اور اہل وعیال کے کھانے پینے میں کشادگی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ پورے سال اس کی روزی کو کشادہ فرما دیں گے۔ صحابی رسول حضرت جابرؓ اور حضرت سفیان بن عیینہ،یحیی بن سعید فرماتے ہیں کہ ہم نے تجربے کے بعد اسے درست پایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب لسان المیزان میں مذکورہ بالا حدیث کو منکر کہا ہے۔(لسان المیزان ج 6)لیکن بعض محدثین نے اسے صحیح اورمسلم کے شرط کے مطابق قراردیا ہے۔کشف الخفاللعجلونی اس لیے اعتدال کے ساتھ اس پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہاں البتہ افراط وتفریط کی اس میں بالکل گنجائش نہیں ہے۔ (جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور (یو پی)
سابق رکن مدنی دارالمطالعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے