ھدیہ ماہ محرم قسط اول


ھدیہ ماہ محرم قسط اول

ھدیہ ماہ محرم قسط اول




✍:  محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی

Mob. 9286195398
Email: mdsajidqasmi869@gmail.com

   سال کے مہینوں ہفتوں اور دنو ں کو صحیح اندازے اور درست مقدار کے ساتھ تقسیم کرنے کو ہمارے عرف میں نظام الاوقات، عربی میں تقویم، انگریزی میں کیلینڈر, سنسکرت میں پترا اور ہندی میں جنتری کہتے ہیں۔ اور تقویم کے توسط سے دن اور وقت کو معلوم کرنے کا نام تاریخ ہے۔ 

تاریخ کی ضرورت واہمیت:
      ماضی کے واقعات، مستقبل کے معاملات،آپسی صلح نا مے اور معاہدات، خوشی اور غم کی تقریبات نیز مذہبی احکامات پر عمل درآمد تاریخ کے بغیر مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے۔  

تاریخی نظام کی بنیاد:
   ہندوستان میں تاریخی نظام کی بنیاد یا تو سورج پر ہے یا چاند یا پھر ستاروں پر جسے نظام شمسی ، قمری اور نجومی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

نظام قمری کی خصوصیت:
  سورج ہو یا چاند سب قدرت خداوندی کے خاص مظاہر ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کو خدمت بشر کے لیے ہی وجود بخشا ہے اس لیے چاند ہو یا سور ج دونوں سے اس باب میں استفادہ جائز اور مباح ہے ہاں البتہ نظام قمری کے ماسوا دیگر نظام چونکہ خالص انسانی دماغ کی اختراع ہیں اور اس میں حسب ضرورت تصرف بھی ہوتا رہتا ہے اس لیے اس کے مقابلے نظام قمری بہتر ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:"ان عدة الشهور عندالله اثناعشر شهراً فى كتاب الله الخ۔(التوبہ)ترجمه: مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک یعنی لوح محفوظ میں بارہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی دن سے جب سے اللہ تعالی نے زمین وآسمان کو پیدا کیا، ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی درست دین ہے لہذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔"ایک جگہ فرمایا:"يسلونك عن الاهله قل هي مواقيت للناس والحج"   ترجمہ:لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ لوگوں کے لئے اوقات کی تعیین اور ایام حج کو معلوم کرنے کا ذریعہ ہے(البقرہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"ان الزمان قداستدار كهياته يوم خلق الله السموات والأرض السنة اثناء عشر شهراً منها أربعة حرم الخ (بخاري شريف جلد:٢۔مسلم شریف کتاب القسامہ) ترجمہ:زمانہ اپنی اسی سابقہ حالت پر واپس آ چُکا ہے جس پر اس وقت تھا جس وقت اللہ ربّ العزت نے زمین وآسمان کو پیدا کیا تھا ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں جن میں سے تین مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ ذوالحجۃ محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔
        مذکورہ ارشاد حجة الوداع کے وقت کا ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ دور جاھلیت میں لڑائی کے درمیان اگر حرمت والے مہینے آجاتے تو محترم سمجھنے کے باوجود بھی لڑائی جاری رکھتے ہاں البتہ محرم کو صفر اور صفر کو محرم قرار دے کر ایسا کیا کرتے تھے, قرآن نے اس کو نسی قرار دے کر کفر مین زیادتی کا اسے سبب قرار دیا مگر جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا ہے مہینوں میں تغیر و تبدل اور تقدیم و تاخیر سے کام نہیں لیا گیا تھا ؛ اس لیے آپ نے فرمایا کہ زمانہ اپنی اصلی حالت پر واپس آ گیا ہے اب آج کے بعد اس میں کسی طرح کا رد و بدل نہ ہوگا۔بہر حال آپ کے اس ارشاد مبارک سے پتہ چلا کہ نظام قمری ایک فطری نظام ہے جسے خالق کائنات نے خود بنایا ہے اور یہ کوئی نیا نظام نہیں بلکہ تخلیق کائنات کے ساتھ یہ نظام بھی چلایا گیا ہے۔

اسلامی تقویم کی شرعی حیثیت:
      جب لوگوں میں اسلامی تقویم کے تئیں غفلت انتہا کو پہنچ جائے اور اس کا چلن ترک یا موقوف ہوجائے تو ایسے عالم میں اس کی حفاظت وصیانت مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی احکام کا تعلق اسی تقویم سے ہے۔ حضرات انبیاء،صحابہ کرام،صلحاءامت نے اسی کو اختیار فرمایا نیز اس کی حیثیت نہ صرف تقویم کی ہے بلکہ تشخص کی بھی ہے۔ 

سن ھجری کی ابتدا اور پس منظر:
     ھجری سال کا آغاز گرچہ دور فاروقی سے ہوا تا ہم مہینوں کے نام ، تعداد اور ترتیب کا چلن پہلے ہی سے تھا۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلامی سرحدوں میں خوب وسعت ہوگئی اور بائیس لاکھ  مربع میل سے زیادہ پر اسلامی پھریرا لہرا نے لگا تو حساب وکتاب نیز حکومتی فرامین کو سمجھنے اور نافذ کرنے میں عمال، گورنروں، اور حکومتی کارندوں کو انتہائی دشواریوں کا سامنا ہوا۔ چنانچہ عراق کے گورنر حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر  دشواریوں کا ذکر کیا  بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک درخواست پیش کی گئی جس پر مہینہ شعبان کا درج تھا مگر تاریخ کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے اس پر تاریخ ندارد تھی آپ نے سوال کیا کہ شعبان سے کون سا شعبان مراد ہے۔ درخواست دہندہ کی مراد واضح نہیں ہو رہی ہے۔ انہیں دشواریوں کے پیشِ نظر آپ نے 17ھ میں اصحاب شوری کو طلب کر کے اس پر مشوری طلب کیا۔ تاریخ اور سن کے اجراء کا تو فیصلہ ہوگیا مگر اس کو منسوب کس سے کیا جایے اس سلسلے میں صحابہ کی مختلف رائے سامنے آ ئی۔ کسی نے معرکہ بدر، کسی نے فتح مکہ , کسی نے ولادت نبوی  ، کسی نے وفات نبوی تو کسی نے ھجرت سے منسوب کرنے کا مشورہ دیا۔ بعض کا مشورہ تھا کہ یہود ونصاریٰ کی تاریخ سے استفادہ کیا جایے مگر آپ نے اس قسم کے مشوروں پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

ھجرت سےمنسوب کرنے کی وجوہات:
       بالآخر اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ ہجرت سے منسوب کرنا چاہیے؛ کیونکہ ھجرت مسلمانوں کی مظلومیت اور بے چارگی کا ثبوت نیز اسلام کی شان دار فتح وکامرانی, رعب و دبدبے، سطوت و شوکت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کا سبب ہے۔(تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر ج1) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سن ھجری کی ابتدا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے ہی ہوگئی تھی البتہ سرکاری کاغذات وغیرہ میں با ضابطہ اس کے اندراج کا رواج امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق کے دور سے ہوا واللہ اعلم۔ (عھد نبوت کے ماہ و سال صفحہ 130) سیرتِ خاتم الانبیاء میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: "اس وقت یعنی بوقت ہجرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اسلامی تاریخ کی ابتدا حضرتِ عمر رض نے کی اور اس کا پہلا مہینہ محرم کو قرار دیا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنے رسالہ الشماریخ فی علم التاریخ میں اس کی تائید کی ہے۔ (سیرتِ خاتم الانبیاء مع الحاشیہ صفحہ 83 ، 84۔الشماریخ فی علم التاریخ ج1) 

ماہ محرم الحرام سے آغاز سال کی وجہ:
       جیسا کہ ابھی معلوم ہوا کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ صحابہ کرام کے ہی مشورے سے محرم الحرام کو قرار دیا گیا۔۔          المختصر لاخبارالبشر ۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ گرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ھجرت کا سفر  ربیع الاول میں کیا ہے تاہم ارادہ چونکہ محرم ہی سے کر لیا تھا اسی وجہ سے ھجری سال کا پہلا مہینہ محرم کو قرار دیا گیا اور بقول حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب مدظلہ العالی کہ تاریخ کے بیشتر اہم اور سبق آموز واقعات اسی مہینے میں رونما ہوئے لہذا جھاں ماہ محرم سال نو کی ابتدا کی نوید دیتا ہے وہیں ان واقعات اور حادثات کی بھی خبر دیتا ہے جن کا یاد رکھنا امت مسلمہ کے لیے ضروری ہے۔ (ماہ محرم اور شہید کربلا)   

خلفاء راشدین کی پیروی لازم ہے:
     یوں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا ہر فرد ہمارے لیے معیار حق اور ہدایت کا آفتاب و ماہتاب ہے لیکن ان میں خلفائے راشدین کو خصوصی اہمیت حاصل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "فعليكم بسنتى وسنة الخلفاء الراشدين المهديين (ابوداؤد شریف ج2 )     ترجمه:میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو   اس لیےیہ خیال کہ سن ھجری کا آغاز دور عمری میں ہوا لہذا اس کے اہتمام اور التزام کی ضرورت نہیں ایک بے بنیاد خیال ہے جو شریعت کے بالکل خلاف ہے۔

بارہ مہینوں کے نام:
      فرنگی تہذیب وروایات سے مرعوبیت نے ہماری تھذیب و تمدن ، تشخص و امتیاز کو بالکل نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے، حال یہ ہے کہ کیا چھوٹے کیا بڑے ، کیا جاہل کیا عالم ، شمسی مہینوں اور تاریخ کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے ہیں مگر جب قمری تقویم کی باری آتی ہے تو تاریخ تو کجا مہینوں کے سوال پر بھی بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ اس لیے بھت مناسب معلوم ہوا کہ اسلامی مہینوں کو ترتیب وار ذکر کردیا جائے قارئین ملاحظہ فرمائیں: محرم الحرام ، صفر المظفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاولی، جمادی الثانیہ ، رجب المرجب، شعبان المعظم، رمضان المبارک (جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے