ماہ محرم الحرام کیا کریں ، کیا نہ کریں !

ماہ محرم الحرام کیا کریں ، کیا نہ کریں !

ماہ محرم الحرام

کیا کریں ، کیا نہ کریں !

(قسط دوم)

✍:   شبیر انور قاسمی

نئے سال کے آغازمیں محاسبہ اور لائحہ عمل:

       مومن کی شان یہ ہے کہ وہ روزانہ اپنے اعمال کامحاسبہ کرے ۔ نیک اعمال کی توفیق پر شکر الہی اور کوتاہیوں پر ندامت و توبہ کے ساتھ اپنی اصلاح کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہنی چاہئے ۔ محاسبہ اور اصلاح کے لیے کسی خاص وقت کا منتظر نہیں رہنا چاہئے کہ فانی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، کب وقت موعود آجائے اور ہم کف افسوس ملتے ہی رہ جائیں۔اس مسلمہ حقیقت کوپیش نظر رکھنے کے ساتھ کہناہے کہ نئے سال کی آمد سے ذہن و دل پر ایک دستک تبدیلی کی ضرور پڑتی ہے کہ زندگی کا ایک اور سال گزر گیا اور ایک نئے سال کا آغاز ہوگیا ؛لیکن مومن کے لیے یہ تبدیلی محض ماہ و سال اور کلنڈر کی تبدیلی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے دینی اور مثبت تبدیلی کا ایک زریں موقع سمجھنا چاہئے۔کیا ہی خوش نصیب ہوگا وہ مومن جس کے لیے یہ تبدیلی ایک خوشگوار دینی تبدیلی کا بہانہ بن جائے۔
          نیا سال کے شروع میں ہمارے دلوں میں دو طرح کے جذبات واحساسات پیدا ہونے چاہئے۔ (١) زندگی کے گزرے ہوئے ایام سے متعلق (٢) آئندہ کی زندگی سے متعلق ۔ نئے سال کے آغاز میں ہمیں گزشتہ زندگی کاجائزہ لینا چاہئے۔ جائزہ کے دوران  بنیادی طورپر تین طرح کے اعمال ہمارے سامنے آئیں گے۔ ٭ نیک اعمال ٭ برے اعمال ٭ لایعنی کام ۔ پہلی بات پر اللہ کا شکر ادا کرنے کیساتھ اس کی قبولیت کی دعا اور مزید اطاعت کی توفیق مانگنی چاہئے۔ دوسری بات پر ندامت وتوبہ کیساتھ آئندہ گناہوں سے اجتناب کا پختہ عزم کر ناچاہئے اور تیسری بات پر افسوس اوراستغفارکرتے ہوئے آئندہ ان لایعنی کاموں سے پرہیزکرنے کاارادہ کرناچاہئے ۔ ایک مومن کے جذبات واحساسات یہی ہونے چاہئے کہ ماضی کامحاسبہ اور کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے آئندہ اپنی زندگی کے اوقات کو قیمتی اور نافع بنانے کاعزم کرے۔

زندگی کو قیمتی بنانے کاسبق :

       زندگی میں کیے جانے والے کاموں کی چاربنیادی قسمیں ہیں۔ ٭مشروع کام:جس میں فرائض،واجبات، سنن ومستحبات سب داخل ہیں۔ ٭ مباح کام یعنی کارآمد جائز کام۔ ٭ لایعنی کام یعنی دنیا اور آخرت میں بے فائدہ کام۔ ٭ ممنوع کام یعنی حرام اور مکروہ کام۔ 
        پہلی قسم یعنی مشروع کام بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، اس لیے ان کو مقصد زندگی بنانا چاہئے ۔ دوسری قسم مباحات یعنی مفید جائز کام، یہ بھی زندگی کاحصہ ہیں، ان کے لیے بھی وقت ہونا چاہئے لیکن ان میں ایسا انہماک نہیں ہوناچاہئے کہ ان کی وجہ سے حصول مقصد میں خلل آئے۔ تیسری قسم لایعنی کام سے پرہیز کیا جانا چاہئے کہ وہ ہر لحاظ سے بے سود اور ضیاع وقت کا سبب ہے۔ چوتھی قسم ممنوع یعنی ناجائز کام مقصد میں رکاوٹ بلکہ مضر ہوتے ہیں اس لیے ان سے بچناچاہئے ۔

ماہ محرم کے فضائل:

       ماہ محرم اپنی فضیلت اور حرمت و برکت میں انفرادی خصوصیت کی حامل ہے۔اسلامی شریعت کے ابتدائی دورمیں اس ماہ کے احترام میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ ارشاد باری ہے: قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ(سورہ بقرہ:٢١٧) ترجمہ: کہہ دیجئے اس میں قتال کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نیز اسے حرمت و عظمت والے مہینوں میں شمار کیا گیا۔ارشاد ربانی ہے: اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَاللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَ شَھْراً۔۔۔۔۔۔مِنْھَا اَرْبَعَۃٌحُرُمٌ۔ (سورہ توبہ:٣٦) ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔۔۔۔۔۔ان میں چار مہینے ادب واحترام کے ہیں ۔ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: زمانے کی رفتار وہی ہے جس دن اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدافرمایاتھا۔ سال بارہ مہینوں کاہوتاہے، ان میں سے چار ماہ عظمت و حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں یعنی: ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے جو جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے۔(صحیح بخاری:٣١٩٧۔٤٤٠٦،صحیح مسلم:١٦٧٩،ابوداود:١٩٤٧ مسنداحمد:٢٠٣٨٦)نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ کو ''اللہ کامہینہ ''فرمایا ہے۔اورعظمت وفضیلت میں رمضان کے بعد اسی ماہ کا درجہ ہے۔
       ان مہینوں کے اعزاز واحترام کا تقاضا ہے کہ ان میں نیک اعمال کا اہتمام کیاجائے اور برے کاموں سے اجتناب کیاجائے ۔حضرات اہل علم فرماتے ہیں کہ جوشخص ان چار مہینوں میں عبادت کااہتمام کرتا ہے اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق ہوجاتی ہے اور جوشخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے تو سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے(معارف القرآن سورہ توبہ آیت:٣٦)

محرم کے روزوں کی فضیلت:

      ماہ محرم کی حرمت وفضیلت کے سبب اس ماہ میں کی جانے والی ہر عبادت قابل قدر اور باعث ثواب ہے۔ تاہم احادیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:وَأَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَھْرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَھْرِ اللّٰہِ الْمُحَرَّمِ۔(مسلم: ١١٦٣) ترجمہ: رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینہ ''محرم'' کے روزے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْماً مِنْ الْمُحَرَّمِ فَلَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْماً۔(غنیۃ الطالبین ص:٣١٤) ترجمہ: جو محرم کے ایک دن کا روزہ رکھے اس کو ایک مہینہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔

یوم عاشورہ کے روزہ کی فضیلت:

      ''یوم عاشوراء '' کو خاص طور پر اللہ نے اس ماہ کے باقی ایام سے ممتاز مقام عطا فرمایا جو بہت سے فضائل کا حامل اور نیکیوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یوم عاشوراء کا روزہ اس ماہ کے باقی ایام کے روزوں سے افضل اور گزشتہ سال کے گناہ کی معافی کاذریعہ ہے۔ ارشاد نبوی ہے: وَ صِیَامُ یَوْمِ عَاشُوْرَاءَ أَحْتَسِبُ عَلیَ اللّٰہِ أَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِیْ قَبْلَہُ۔ (مسلم :١١٦٢) یعنی  جو آدمی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَحَرَّی صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَہُ اِلاَّ ھَذَا الْیَوْمَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَوَھَذَا الشَّھْرَ یَعْنِیْ شَھْرَ رَمَضَانَ(بخاری:٢٠٠٦) یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک اور دسویں محرم کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

یوم عاشورہ کے روزہ کاتاریخی پہلو:

      زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ یوم عاشورہ کاروزہ رکھتے تھے،رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں عاشورہ کاروزہ رکھتے تھے،مدینہ تشریف لانے کے بعد آپؐ نے دیکھا کہ یہود اس دن روزہ رکھتے ہیں تو آپؐ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی،تو یہود نے کہاکہ یہ عاشورا  تو عظیم الشان دن ہے ،اس دن اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون کو قوم سمیت غرق کردیا تھا ، تو حضرت موسی نے شکرانہ کے طور پر اس دن روزہ رکھا اس لیے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم حضرت موسی کے تم سے زیادہ حق دار ہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کاروزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ عاشورہ کاروزہ رکھنے میں ہر ایک کو اختیار ہے ،کوئی رکھنا چاہے تو رکھ لے اور نہ رکھنا چاہے تو نہ رکھے۔اس سے عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی البتہ اس کا مستحب ہونا برقرار رہا۔ جیسا کہ بخاری شریف حدیث نمبر:١٥٩٢ اور٢٠٠٢ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے اور مسلم شریف حدیث نمبر:١١٣٠میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے تفصیلی روایت نقل کی گئی ہے۔

یوم عاشورہ کیساتھ ایک اور روزہ ملانے کاحکم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودونصاری کی مشابہت سے بچنے کے لیے نومحرم کاروزہ رکھنے کابھی حکم دیا۔اور اپنی اس خواہش کااظہاربھی فرمایا۔ مسلم شریف میں ہے:عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عِبَّاسِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا یَقُوْلُ: حِیْنَ صَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَِّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَ أَمَرَ بِصِیَامِہِ قَالُوْا:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنَّہُ یُوْمٌ تُعَِظِّمُہُ الْیَھُوْدُ وَالنِّصَارَی ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلِیْہِ وَسَلَّمَ : فَاِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ -اِنْ شَاءَ اللّٰہُ -صُمْنَا الْیَوْمَ التَّاسِعَ ۔ قَالَ فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّی تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اﷲ صَلَّی ﷲ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ۔وَ فِیْ رِوَایۃٍلَأَصُوْمَنَّ التَّاسِعْ۔ (مسلم:١١٣٤) ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عاشورہ کاروزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کاحکم دیا توصحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ! یہودو نصاری تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ انشاء اللہ اگلے سال ہم نو تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے ، لیکن اگلے سال سے پہلے ہی انتقال فرما گئے۔
    اس لیے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ٩ یا ١١ تاریخ کو ملا کر روزہ رکھنا چاہئے، تاکہ سنت بھی اداہوجائے اور مخالفتِ یہود کا پہلو بھی نکل آئے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَ خَالِفُوْا فِیْہِ الْیَھُوْدَ وَ صُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْماً أَوْ بَعْدَہُ یَوْماً۔ (مسند احمد:٢١٥٤) ترجمہ: تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔ ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں فقہائے کرام نے فرمایا ہے کہ تنہا دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ اور یہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں: (وتنزیھا کعاشوراء) أی منفردا عن التاسع أو عن الحادی عشر۔ 'امداد' لانہ تشبہ بالیھود ۔ 'محیط' (ردالمحتارکتاب الصوم)

مشابہت نہ رہنے پرحکم شرعی ؟

       بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ آج کل چونکہ یہود عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے۔ اس لیے اب مشابہت نہیں رہی تو مزید ایک روزہ ملا کر رکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ بات چند وجوہات کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ اول تو یہ کہ اس بات کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ یہود عاشورہ کا روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ دوم یہ کہ یہود کا وہ طبقہ جو مذہب سے گہری عقیدت رکھتا ہے ان کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ عاشورہ کا روزہ نہیں رکھتے ہوں گے ۔سوم یہ کہ اگریہ بات مان بھی لی جائے کہ یہود آج کل روزہ نہیں رکھتے تب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے پیش نظر دو روزے رکھنا مستحب ہے ،چوتھی بات یہ کہ شریعت میں بہت سے احکام ایسے ہیں جو مخصوص علت کی وجہ سے مشروع ہوئے مگر علت نہیں رہنے کے باوجود مشروع ہیں مثلا طواف قدوم میں رمل کرناجوکفارمکہ کوقوت دکھانے کے لیے مشروع ہوا تھا اور علت مفقود ہونے کے باوجود آج تک جاری ہے۔
مسئلہ:
محرم کاروزہ رکھنا مستحب عمل ہے اس لیے اس کو ضروری سمجھنا اور اس معاملے میں حدود سے تجاوز کرنا ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص تنہا عاشورا کاہی روزہ رکھنا چاہے تو ناجائز نہیں بلکہ اس کو اس روزے کاپورا ثواب ملے گا ،اس لیے ایسے لوگ جوکسی وجہ کر دو روزے نہ رکھ سکتے ہوں تو وہ بھی عاشورا کا ایک روزہ رکھ کر اس کی فضیلت حاصل کرسکتے ہیں۔اس لیے کہ یہود کی مخالفت کے سبب ایک اور روزہ ساتھ ملانے کا معاملہ استحبابی حکم ہے لیکن اگر کوئی شخص اس ماہ کے کسی اور دن روزہ رکھناچاہے تواس کے ساتھ کوئی اور روزہ ملانے کاحکم نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے نو محرم کاروزہ رکھااور دس محرم کاروزہ کسی وجہ کر نہ رکھنا چاہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں،کیوں کہ نو محرم ماہ محرم کا ایک عام دن ہے اس کے ساتھ دس محرم کا روزہ ملانے کا حکم نہیں ہے۔

عاشورہ کے دن اہل وعیال پر خرچ میں وسعت کرنا:

١٠/محرم کے دن گنجائش کے مطابق اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اور فراخی کرنا رزق میںبرکت اور فقروفاقہ سے نجات کاسبب ہے ۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ وَسَّعَ عَلٰی نَفْسِہِ وَ أَھْلِہِ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہِ۔ (الاستذکارلابن عبدالبر:٣/٣٣١) ترجمہ: جو آدمی اپنے اوپر اور گھر والوں پر عاشوراء کے دن (کھانے پینے میں) وسعت کرے گا اللہ تعالی اس پر پورے سال وسعت فرمائیں گے۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے'شعب الایمان' میں حضرت جابرؓکے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ،حضرت ابوسعیدخدریؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓسے یہ حدیث نقل کی ہے اور پھر فرمایا ہے کہ: یہ تمام روایات اگرچہ ضعیف ہیں لیکن چوں کہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں اس لیے مجموعی اعتبار سے ان میں قوت آجاتی ہے۔اسی طرح عاشورا کے دن وسعت والی بات حضرت عمرؓ اور امام محمد بن منتشر تابعی سے بھی مروی ہے۔ (الاستذکار)
       اس سے معلوم ہوا کہ دسویں محرم کو اپنے آپ پر اور اہل و عیال پر عام دنوں کے مقابلے میں اخراجات میں وسعت کرناچاہئے،اس مبارک عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالی پورے سال رزق میں فراخی اور وسعت کردیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے جلیل القدرصحابی حضرت جابرؓ، مشہورمحدث یحی بن سعید اور معروف امام و فقیہ سفیان بن عیینہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس کوحق اور اسی طرح پایا۔(الاستذکار) 
      البتہ یہ بات بھی یاد رہے کہ مذکورہ امور جس درجے میں ثابت ہیں ان کو اسی درجے میں رکھ کر عمل کیا جائے۔اس کو باقاعدہ عمومی دعوت کی شکل نہ دی جائے ، اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے بلکہ افراط و تفریط سے بے حد پرہیز کیا جائے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو حق بات کہنے، سننے اور سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ نائب قاضی واستاذ مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرئے
📞9931014132 
📧muftishabbirbgs@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے