تقویمِ اسلامی یعنی ھجری کیلنڈر


تقویمِ اسلامی/ھجری کیلنڈر


تقویمِ اسلامی یعنی ھجری کیلنڈر


تقویمِ اسلامی یعنی ہجری کیلنڈر کا باضاطہ آغاز خُسرِ رسول خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت سے ہوا ہے۔

آپ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں دینِ اسلام ملکِ عرب سے نکل کر بیرونِ عرب بھی دور دور تک پھیل چکا تھا انتظامِ خلافت کے پیشِ نظر  جگہ جگہ حُکّام وعُمّال (گورنر) مقرر کیے جانے لگے۔

امیر المؤمنین کی جانب سے گورنروں کے نام احکام وفرامین پر مشتمل  خطوط بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔

ابھی تک تقویمِ اسلامی نہ ہونے کی بنا پر گورنروں کے نام جاری کردہ خطوط میں درج تاریخ میں امتیاز کرنا دشوار ہورہا تھا۔

ایسے وقت میں تقویمِ اسلامی کی ضرورت محسوس کی گئی اور امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کے حکم سے بڑے بڑے اہل الرائے صحابہ کی مجلس شوریٰ بلائی گئی۔

اور اہل الرائے صحابہ کے اتفاقِ رائے سے ہجری کیلنڈر کا قیام عمل میں آیا۔

اُس وقت سے باضابطہ تقویمِ اسلامی یعنی ہجری کیلنڈر کا استعمال شروع ہوگیا۔

واضح رہے کہ جس وقت تقویمِ اسلامی کی ضرورت محسوس کی گئ تھی اُس وقت ملکِ عرب میں کئی کیلنڈر رائج تھے چاہتے تو موجودہ کسی بھی کیلنڈر کو اختیار کرلیتے مگر امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کی غیرت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ہم مسلمان ہوکر کسی غیر کے کیلنڈر کو عمل میں لائیں۔

کیونکہ اسلام تو ایک جامع مذہب ہے انسانی زندگی کے ہرشعبہ میں رہنمائی کرتا ہے کسی بھی شعبہ میں غیر کا محتاج نہیں ہے پھر کیلنڈر کے معاملے میں غیر کا محتاج کیوں بنے؟

ہجری کیلنڈر کا قیام عمل میں آنے کے بعد اہلِ اسلام ہر جگہ اسی کیلنڈر کو استعمال کرنے لگے۔

اور یہ سلسلہ صدیوں تک مسلسل چلتا رہا۔

مگر پھر بعد میں اہلِ اسلام نے ہجری کیلنڈر کے استعمال میں کوتاہی شروع کردی اور عیسوی یعنی انگریزی کیلنڈر استعمال کرنے لگے۔

اور اب نوبت یہاں تک پہونچ چکی ہے کہ مسلم معاشرہ میں انگریزی کیلنڈر کا استعمال اتنا غالب آچکا ہے کہ اہل اسلام کو ہجری تاریخیں یاد بھی نہیں رہتی ہیں اور سب کے ذہنوں میں انگریزی کیلنڈر ہی سمایا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر کسی سے صرف یہ پوچھا جائے کہ آج کتنی تاریخ ہے؟

تو جواب دینے والا فورا انگریزی تاریخ ہی بتائے گا۔

حالانکہ پوچھنے والے نے نہ تو انگریزی کیلنڈر کا نام لیا ہے اور نہ ہی انگریزی مہینے کا بلکہ صرف تاریخ پوچھی ہے۔


اس لیے شدید ضرورت ہے کہ اہلِ اسلام اپنے ہجری کیلنڈر کے استعمال کو غالب رکھیں۔

کیونکہ احکامِ شرعیہ کا مدار بھی ہجری کیلنڈر پر ہی ہے اور ہجری کیلنڈر اسلامی شِعار بھی ہے۔

اسی ضروت کومحسوس کرتے ہوئے ناچیز نے قاسمی ہجری کیلنڈر١۴۴۲ھ کو ترتیب دیا ہے۔

جس میں مہینوں کی ابتداء دائیں جانب سے اورمحرم سے کیا ہے۔

ہجری تاریخ کو مرکزی تاریخ قرار دیتے ہوئے بڑے لفظوں میں اور انگریزی تاریخ کو اس کے تابع قرار دیتے ہوئے چھوٹے لفظوں میں رکھا ہے۔ چوں کہ قمری مہینے مرکزی حیثیت کے ہیں اسی لیے ہر قمری مہینے کےساتھ دو عیسوی مہینے آئے ہیں۔

اس کیلنڈر کی ترتیب کا مقصد ہجری کیلنڈر کو فروغ دینا ہے۔

عموماً جو کیلنڈر شائع ہوتے ہیں اس میں انگریزی تاریخ کو اصل اور ہجری تاریخ کو اس کے تابع رکھتے ہیں جبکہ قاسمی ہجری کیلنڈر میں اس کے برعکس ہے تاکہ ہجری کیلنڈر کو فروغ دیاجاسکے۔

اس قاسمی ہجری کیلنڈر کی جے پی جی, پی ڈی ایف فائلیں نیچے دی جارہی ہیں 👇👇👇

کاوش: زین العابد ین قاسمی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے