ہدیہ محرم الحرام:حضرت حسینؓ کی سخاوت و فیاضیقسط ۵

ہدیہ محرم الحرام:حضرت حسینؓ کی سخاوت و فیاضیقسط ۵



قسط پنجم
بقلم: محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور یو پی
 mob 9286195398 

حضرت حسینؓ کی سخاوت و فیاضی
     حضرت حسین رضی اللہ عنہ بہت آسودہ  اور خوش حال تھے۔ زمانہ عمری سے پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ جاری ہوا جو حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت تک برابر جاری رہا۔ حضرت حسنؓ نے جب حضرت امیر معاویہؓ سےصلح کیا تو حضرت حسینؓ کے لیے دولاکھ سالانہ وظیفہ مقرر کر وایا۔ ان تمام باتوں کے با وجود آپ پر فقر وفاقہ اور زہد کا اثر نمایاں تھا۔ آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اس میں اپنے اوپر دوسرو ں کو ترجیح دینے کا رواج تھا، اپنا کھانا بھوکوں  کو کھلا کر فقر وفاقہ کی چادر اوڑھ کر سو جانا خاندان نبوت کا طرہ امتیاز تھا۔ اس لیے آپ بھی اپنا سارا مال دوسروں پر لٹا کر خوش ہو تے، کوئی سائل در حسین سے خالی ہاتھ واپس نھیں جاتا۔ ایک دفعہ آپ نماز میں مشغول تھے کہ ایک سائل کی آواز سماعت سے ٹکرائی، آپ نے نماز مختصر کی اور سائل کی خستہ حالی دیکھ دو سو درہم جو اہل بیت میں تقسیم کیلیے رکھا تھا سارا سائل کو دے دیا۔ نہ جانے کتنے غربا و مساکین کا چولہا آپ ہی کے ذریعہ مدینے میں روشن تھا، علاوہ ازیں شعرا و ادبا اور علماء کی دست گیری بھی فرمایا کرتے تھے۔

حضرت حسینؓ کاعلمی مقام
     حضرت حسینؓ کا علمی مقام بہت بلند تھا، فقاہت وراثت میں ملی تھی، اہل مدینہ مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے آپ سے سوال کیا کہ شیر خوار بچے کا وظیفہ کب سے جاری ہونا چاہئے؟ آپ نے فرمایا کہ پیدائش کے وقت سے۔ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ قیدی کو چھڑانا کس کے ذمہ ہے؟ آپ نے فرمایا جس کی حمایت کے لیے وہ لڑا ہو۔ آپ حدیث وفقہ کے ساتھ ساتھ عرب کے مروجہ علوم سے بھی خوب واقف تھے۔ آپ کی فصاحت و بلاغت اور تبحر علمی کا اندازہ آپ کی سیر میں موجود خطبات سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ (شھید کربلا)   

ملفوظات حسین رضی اللہ عنہ
     سیرت نگاروں نے آپ کے بھت سے اقوال قلم بند کیے ہیں، جو حکمت و موعظت اور پند و نصیحت کے جواہر پارے ہیں۔ 1: جلد بازی نادانی ہے۔ 2:حلم زینت ہے۔ 3: صلہ رحمی نعمت ہے۔ 4: حسن خلق عبادت ہے۔ 5: نرمی عقل مندی ہے۔ 6: راز داری امانت ہے۔ 7: اپنی تعریف ہلاکت ہے۔ 8: بخل افلاس ہے۔ 9: سخاوت مالداری ہے۔ 10:  عمل تجربہ ہے۔

تواضع و انکساری
     زہد و عبادت ، علم و فضل اور تقویٰ وخشیت کے ساتھ ساتھ آپ انتہائی حلیم الطبع، منکسر المزاج اور تواضع کا پیکر تھے۔ غرور و نخوت، تکبر وتمکنت سے گریزاں اور ترش روئی و بد مزاجی سے کوسوں دور تھے۔ کم رتبہ اور معمولی حیثیت کے لوگوں سے بھی خندہ پیشانی اور تپاک سے ملا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ فقرا کی جماعت کے پاس سے گزر ے، تو انھو ں نے آپ کو کھانے پر مدعو کیا، آپ نے یہ کہتے ہوئے: "ان اللہ لا یحب المتکبر ین یعنی غرور اللہ کو نا پسند ہے"بھت خوشدلی سے اسے قبول کیا اور بدلے میں ان کی بھی دعوت کی اور ان کی خوب خاطر تواضع کی۔ (شہید کر بلا)

مختصر سانحہ کربلا
    حضرتِ امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد جب آپ کا بیٹا یزید خلیفہ بنا تو بعض حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کی بیعت سے صاف انکارکردیا۔حضرت حسینؓ ان میں سر فہرست تھے۔ اسی درمیان سلیمان ابن الخزاعی نے اہل کوفہ کی ایک میٹنگ کی اور ان سے کہا کہ تم شیعانِ علی ہو، لہٰذا اگر حضرت حسین کی بیعت تم کرسکتے ہو تو انھیں بلا لو،چنانچہ انہوں نے پے در پے  چھ سو خطوط لکھے۔ (جلاء العیون۔ ص128) اور مسلسل قاصد آپ کے پاس روانہ کیے یہاں تک کہ آخر تک آپ کے پاس کئی قاصد اور تقریباً بارہ ھزار خطوط جمع ہو گئے تھے۔ (جلاء العیون) جب حضرت حسینؓ نے اہل کوفہ کا مسلسل اصرار دیکھا، تو لکھا کہ میں تمھارے پاس اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں، تاکہ وہ حالات کا جائزہ لے کر مجھے مطلع کریں، جس کی روشنی میں میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔ جب حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے، تو آپ کے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار اور بعض روایات کے مطابق 12ھزار لوگوں نے بیعت کی۔(جلاءالعیون۔الاصابہ ج2ص78) چنانچہ حضرت مسلم  بن عقیل نے جب یہ وارفتگی دیکھی، تو حضرت حسینؓ کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کیا، مگر دوسرے ہی دن اہل کوفہ ابنِ زیاد سے خوف کے مارے حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت سے برگشتہ ہوگئے۔ (جلاء العیون:ج2 ص:142۔ 162)

کوفہ کو روانگی
حضرتِ حسینؓ نے مسلم ابن عقیل کے خط کی روشنی میں مطمئن ہوکر کوفہ جانے کا ارادہ فرمایا، جب آپ کے ارادے کی اطلاع آپ کے بہی خواہوں کو ملی، تو انہیں بھت تشویش ہوئی، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور آپ کے بھائی محمد بن حنفیہؓ نے آپ کو جانے سے منع کیا اور اہل کوفہ کی بے وفائی کا ذکر کرکے ان  پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ (سیر اعلام النبلا ج3 ص203۔مصنف ابنِ ابی شیبہ ج15ص96) حضرت ابن عباسؓ نے تو یہاں تک کہا کہ: واللہ مجھے لگتا ہے تم کل اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے درمیان اسی طرح قتل کیے جاؤ گے جیسے حضرت عثمان غنیؓ شہید کیے گئے۔ واللہ مجھے تو یہ بھی خوف ہے کہ تم قصاص عثمان میں قتل کیے جانے والے بنو۔ پس تم اگر نہیں مانتے تو "انا لللہ و انا الیہ راجعون" (البدایہ والنہایہ ج8 ص164) مگر آپ کا ارادہ چونکہ بھت پختہ تھا؛ اس لیے آپ کو روکنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔
   آپ اپنے خاندان کے افرادکے ساتھ عازم سفر ہوئے ۔ کوفہ سے کچھ دور پہلے ایک مقام ہے جس کا نام ہے زبالہ وہیں وہ خط حضرت حسین کو ملا ، جو مسلم بن عقیل نے گرفتاری کے بعد آپ کو لکھا تھا اور لکھ کر محمد بن اشعث کو آپ تک پہنچانے کی ذمہ دار ی دی تھی، جس کا مضمون حسب ذیل ہے: "میں گرفتار ہو چکا ہوں، آپ شاید روانہ بھی نہ ہو ں اور مجھے قتل کر دیا جائے، لھذا جھاں بھی میرا پیغام آپ کو موصول ہو، وہیں سے واپس چلے جائیں، اہل کوفہ کا کوئی بھروسہ نہیں۔ انھوں نے ہم دونوں سے جھوٹ بولا ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے آپ کے والد محترم موت یا شہادت کی تمنا کرنے لگے تھے۔"(طبری ج6ص 11) مسلم بن عقیل کی گرفتاری کا سن کر حضرت حسینؓ کو بہت دکھ ہوا، رفقاء سے مشورہ کیا ، سب نے مسلم بن عقیل کا بدلہ لیے بغیر واپس ہونے سے انکار کر دیا۔ قافلہ روانہ ہوا اور جب مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہونچا، تو حر بن یزید ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ کو گرفتار کر نے کے ارادے سے راستے میں حائل ہوا۔ حضرتِ حسین نے اہل کوفہ کے سارے خطوط دکھلا کراسے گرفتاری سے باز رہنے کی نصیحت کی، وہ نھیں مانا اور آپ سے کہنے لگا کہ اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: سامضی وما بالموت عار علی الفتی۔ اذا مانوی حقا وجاھد مسلما۔ فان عشت لم اندم وان مت لم الم۔ کفی لک ذلا ان تعیش وتر غما۔ میں گزر جاؤں گا اور بھادر آدمی کے لئے موت باعث ذلت نہیں جب کہ اس کی نیت درست اور مسلمان بن کر  جھاد کرنے والا ہو۔پھر اگر میں زندہ رہا تو ندامت اور اگر مرگیا تو ملامت کا مستحق نہیں ہوں گا اور تم زندگی بھر ذلیل وخوار ہو گے۔ پھر آپ نے دوسرے قاصد قیس بن مسھر کو روانہ کیا، مگر پہلے قاصد کی طرح ابن زیاد نے انھیں بھی قتل کر دیا۔ جب ان کے قتل کی خبر آپ نے سنی، تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ (تاریخ ابنِ خلدون ج 2 ص52۔ البدایہ والنہایہ ج 4 ص570)
     آخر کار 2محرم 60ھ میدان حق وباطل کربلا میں پہونچ گئے۔ ادھر ابنِ زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بنا کر میدان کربلا کی طرف روانہ کیا۔ حضرتِ حسین کو جب پتہ چلا کہ عمر  مقابلہ پر آمادہ ہے، تو آپ نے اس کے سامنے ایک پیش کش کی۔ اختر واحدہ اما ان تدعونی فاصرف من حیث جئت اما ان تدعونی فاذھب الی یزید واما ان تدعونی فالحق باالثغور (طبری ج6ص 220 ) ترجمہ: حضرت حسین نے عمر سے کہا کہ تم تین باتوں میں سے ایک کو قبول کر لو، یا تو مجھے واپس جانے دو، یا یزید کے پاس جانے دو،اور کہو تو سرحدوں کی طرف نکل جاوں تاکہ بقیہ عمر جھاد میں صرف کروں ۔ عمر  نے ابن زیاد کو آپ کے پیش کش کی اطلاع بھیجی مگر اس نے کہا کہ اس وقت تک کوئی بات بھی نہیں مانی جائے گی جب تک کہ اپنا ہاتھ وہ میرے ہاتھ میں نہ دیدیں۔ یہ سن کر حضرت حسینؓ نے فرمایا: لا واللہ لا یکون ھذا ابدا۔ (طبری ج6) بخدا ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ پھر حضرت حسینؓ نے اپنے مختصر لشکر کے رفقاء کو ایک پر اثر اور پرجوش خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جسے واپس جانا ہو میری طرف سے اسے جانے کی اجازت ہے مگر سب نے کامل وفاداری کا آپ کو یقین دلایا۔ 9 محرم الحرام کی شب آپ نے اپنے رب کے سامنے دعا و مناجات میں بسر کی۔ دس محرم الحرام کو صبح سویرے جنگ کے لیے اپنے ساتھیوں کی صف بندی فرمائی۔ عمر نے آپ پر حملہ کیا۔ کربلا کا میدان لہو سے لالہ زار ہونے لگا۔ دونوں طرف کے لوگ ہلاک اور شہید ہونے لگے۔ بالآخر لشکر یزید نے حضرتِ حسینؓ کا خیمہ نذر آتش کردیا۔ معصوم بچوں پر بھی رحم نہ کیا گیا۔ زرعہ بن شریک نے آپ کے کندھے پر وار کیا، آپ پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن انس نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ زمین پر گر پڑے۔ پھر آگے بڑھ کر اس شقی نے آپ کا سر تن سے جدا کرکے ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ اس نے سر مبارک کی بے حرمتی کی اور یزید کو لکھا کہ میں نے حسین کا سر قلم کر دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج 4۔ تاریخ ابنِ خلدون ج 2 ص548) اور اس طرح حق وباطل کی معرکہ آرائی میں باطل نے جیت کر بھی ایسی شکست کھائی کہ یزید تھا حسین ہیں۔ ؎
مطیع نے دل سے پوچھا ہے بتا کہ کیا حسین ہے
ڈھڑک ڈھڑک کے بول اٹھا صدا صدا حسین ہے۔
شان اہل بیت دیکھ سبھی کے سب مثال ہیں۔
کوئی نہیں حسین سا حسین بس حسین ہے۔
عمر سے چل عمیر تک بشر سے چل بشیر تک۔
بڑے بڑے یہ کھ گئے بہت بڑا حسین ہے۔
عجب لڑی ہے جنگ بھی حسین نے یزید سے
ہو اس سے بڑھ کے جیت کا یزید تھا حسین ہے

میدان کربلا کے شھداء
میدان کربلا میں 88 یزیدی ہلاک اور قافلہ حسینی کے  72 رہرو ں نے جام شہادت نوش کیا۔ بناکر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن۔۔۔۔۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ (جاری)
محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
جامعہ فیض ھدایت رام پور سابق رکن مدنی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے