مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اور إدارة المباحث الفقهية قسط : ( ٤)


مولانا معز الدین رحمۃ اللہ علیہ اور إدارة المباحث الفقهية

ارباب فقہ و افتاء کے اجتماعی غور و خوض کے ذریعہ پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کے لئے جمعیت علماء ھند کے زیر اھتمام ۱۹۷۰ء میں "  إدارة المباحث الفقهية " کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے ذمے دار و منتظم حضرت مولانا سید محمد میاں صاحب علیہ الرحمہ تھے ، حضرت کے زمانہ حیات تک یہ ادارہ متحرک رھا اور مختلف موضوعات پر ارباب افتاء کی تحقیقی آراء سامنے آتی رھیں؛ لیکن آپ کے بعد اس شعبہ کے تحت کوئی قابل ذکر کام نہیں ھوسکا یہانتک کہ حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کی تحریک پر ۱۹۹۰ء میں جمعیت علماء ھند کی مجلس عاملہ نے إدارة المباحث الفقهية کے احیاء اور نشأة ثانیہ کے سلسلہ میں تجویز پاس کی ، اس نظام کو سنبھالنے کے لئے بھائی معزالدین ھر اعتبار سے بہت موزوں تھے چنانچہ حضرت فدائے ملت رحمہ اللہ نے ادارہ کے نظام کو فعال و مستحکم بنانے کے لئے انہیں مکلف کیا ، انھوں نے یہ ذمے داری ایسی اوڑھی کہ إدارة المباحث الفقهية اور وہ یک جان دوقالب بن گئے ، ان کا تعارف ادارے کے بغیر اور ادارے کا تعارف ان کے تذکرے کے بغیر نامکمل ھوگیا ، ان کی نظامت کے دوران ۱۹۹۱ء سے ۲۰۱۹ء تک مختلف موضوعات پر ملک کے متعدد شھروں میں پندرہ کامیاب فقہی اجتماعات منعقد ھوئے ، سولھویں فقہی اجتماع کی بھی تیاری پوری ھوچکی تھی ، ۲۲/ مارچ ۲۰۲۰ء سے دھلی میں اس کا انعقاد طے تھا لیکن کووڈ ۱۹ کی وجہ سے عالمی حالات میں غیر معمولی بدلاؤ کی وجہ سے اسے منسوخ کرنا پڑا ۔

     مباحث فقھیہ کے کاموں سے واقف حضرات جانتے ھیں کہ وہ کتنی جانسوزی اور محنت بھرا کام ھے لیکن بھائی معزالدین بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کمیٹی کے مؤقر اراکین کے تعاون سے جملہ امور کو انجام دے دیا کرتے تھے ، سوالنامہ تیار کروانا پھر دارالعلوم دیوبند کے کبار اساتذہ کی خدمت میں حاضر ھوکر اسے سنانا ، کوئی چیز قابل اصلاح ھو تو اسے درست کرنا ، حضرات اکابر کے اطمینان کے بعد سوالنامہ فائنل کرنا اور پھر مقالہ نگار حضرات کی خدمت میں ارسال کرنا یہ سارے کام پہلے مرحلے میں انجام دئے جاتے تھے ۔

   مقالات کی وصولیابی کے ساتھ وہ ھر ایک مقالے کا گہرائی سے مطالعہ کرتے پھر اپنے ذھن میں محنت کے ساتھ مفصل مقالہ لکھنے والے حضرات کے نام محفوظ کرلیتے ، ملاقات پر ان کو سراھتے ، حوصلہ افزائی کرتے اور دوسروں کے سامنے خوش کن الفاظ میں ان کا تذکرہ بھی کرتے ، اس کے بر خلاف جن لوگوں کی طرف سے بلا کسی عذر کے جوابات موصول نہیں ھوتے یا وہ سرسری انداز میں جوابات لکھتے ان کے نام بھی ذھن میں محفوظ رکھتے ، کوئی بے تکلف ھوتا تو محنت سے لکھنے کی تاکید بھی کرتے اس کے باوجود بھی اگر رویہ میں تبدیلی محسوس نہ کرتے تو کمیٹی کے سامنے آئندہ ایسے حضرات کو دعوت نامہ نہ بھیجنے کی سفارش بھی کرتے ۔

     مختلف مقالات کا مطالعہ کرلینے کی وجہ سے زیر بحث موضوع کے مالہ و ماعلیہ سے اچھی طرح واقف ھوجاتے ، اور پھر مسئلہ مبحوث عنہ سے متعلق احوال زمانہ کو پیش نظر رکھتے ھوئے اپنی ایک مضبوط رائے قائم کرتے جس کو درست ثابت کرنے کے لئے ان کے پاس نقلی و عقلی دلائل کے انبار ھوتے جس پر وہ اپنی نجی مجلس میں اھل علم کے سامنے کھل کر بات کرتے اور پھر جب سیمینار کے اخیر میں تجاویز کمیٹی کی نشست ھوتی تو اس میں بھی بھائی معزالدین کا رول بہت اھم ھوتا ۔

     جس مقام پر سیمینار کا انعقاد طے ھوتا وھاں کا متعدد مرتبہ سفر کرتے ، آنے والے مہمانوں کے لئے بہتر سے بہتر راحت رسانی کی وھاں جو شکل ممکن ھوسکتی تھی ذمے داران کو اسے اختیار کرنے کا پابند بناتے ، حتی الإمكان کوشش کرتے کہ مہمانان کرام کو سفر اور قیام و طعام وغیرہ میں کسی طرح کی کوئی دشواری نہ ھو ، ھر مقالہ نگار سے بذات خود رابطہ کرتے اور سفر کی تفصیلات سے ان کو آگاہ کرتے ۔

     سیمینار کی تاریخیں طے ھونے کے بعد دارالعلوم دیوبند کے اکابر اساتذہ کرام کی خدمت میں حاضر ھوتے ، سیمینار میں شرکت کی دعوت دیتے اور ان کے حسب منشا سفر کی ترتیب بنادیتے ، حضرات اساتذہ کرام بھی بھائی معزالدین کا اتنا لحاظ کرتے کہ مصروفیت کے باوجود سیمینار میں شرکت کے لئے وقت نکالنے پر راضی ھوجاتے ، حضرت مولانا ریاست علی صاحب نور اللہ مرقدہ تو غایت درجہ تواضع اور بھائی معزالدین سے حد درجہ تعلق کی بنا پر یہ بھی فرمادیا کرتے تھے کہ : " بھئی یہ تو مفتیوں کا کام ھے  ھم تو معزالدین کے ڈر سے یہاں آجاتے ھیں ۔"

     فقہی سیمینار کے آغاز سے دو ایک روز قبل مقام اجتماع پر چلے جاتے اور ھر طرح کی تیاریاں مکمل کرواتے یہاں تک کہ اسٹیج سج جاتا ، اجتماع گاہ آراستہ ھوجاتی اور پروگرام شروع کردیا جاتا ، اول سے اخیر تک سب کچھ کرنے کے باوجود وہ یہاں بھی نمایاں نہ ھوتے بل کہ دوسروں کو آگے بڑھاکر ان سے کام لیتے رھتے ۔

        (جاری----)

محمد عفان منصورپوری

۲۹ / محرم الحرام ۱٤٤٢ھ 

۱۷/ ستمبر ۲۰۲۰ء

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے