حفظ حديث كى فضيلت قسط١

حفظ حديث كى فضيلت  قسط ١

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

اللہ تعالیٰ نے اِس امّت کو خیر امّت کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے اور ﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ [آل عمران: 110] کا اعلان فرما کر امّت اور اس کے افراد کی قیمت وقامت اور اُن کی نافعیت کو قیامت تک کے لیے ثابت کردیا ہے۔ اِس عزّت وسعادت اور اہمیت وعظمت کو عملی طور پر انسانی دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کتاب وسنّت کی تعلیمات کو ہمہ وقت پیشِ نظر رکھیں اور ان پر عمل کرنے کو  اپنى زندگی کا اہم ترین فريضہ تصوّر کریں ۔

اِسی ضمن میں امّت کے انفرادی اور اجتماعی جملہ معاملات میں حضور پاکﷺ کی تعلیمات کو مجموعی طور پر پیش کرنے کے لیے علمائے امّت اور محدّثینِ عظام نے حدیثِ پاک کے عظیم ذخیرہ کو جمع کرنے کا اہتمام کیا اور ان کو اصولِ حدیث کی روشنی میں پیش کرکے ایک عظیم اسلامی کتب خانہ تیار کیا اور عالم انسانی کو نورِ نبوّت سے منوّر کرنے اور قرآنِ کریم کے بحرِ ناپیدا کنار سے لعل وجواہر کو چننے کے لیے ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں اور اُن کی اِن کاوشوں سے منزلِ مقصود تک پہنچنا ہر شخص کے لیے آسان ہوگیا۔

فن حدیث انتہائی عظیم الشّان اور رفیع المرتبت فن ہے اور کیوں کہ اس کی نسبت اُس ذاتِ گرامی کی طرف ہے جو مخلوق میں سب سے اعلیٰ واشرف ہے یعنی آقائے نامدار، سرورِ کونین، جناب محمّد رسول اللہ ﷺ! اور جس طرح یہ فن عظیم الشّان ہے اسی طرح اس سے اشتغال بھی بڑا مقدّس ومتبرّک عمل ہے۔ بڑے خوش بخت وبانصیب اور رشکِ خلائق ہیں وہ لوگ جنھوں نے حدیث کے پڑھنے پڑھانے اور اس کی نشر واشاعت میں اپنی عمریں کھپا دیں اور رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کے مستحق ٹھہرے کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ راوى  ہيں: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: «نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ» سنن الترمذي (5658).

اس حدیث میں نبی ﷺ نے حدیث نبوی یاد کر کے بعینٖہ  آگے پہنچانے  والے کیلیے دعا ہے یا خبر دی ہے۔ اسى طرح احادیث نبویہ یاد کرنے سے احادیث سمجھنے، ان کا مفہوم ذہن میں بٹھانے اور لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔


صحیحین کی روایت ہے:عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ» صحيح البخاري (79)، وصحيح مسلم (2282).

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جو علم اور ہدایت اللہ تعالی نے مجھے عطا فرما کر مبعوث کیا ہے اس کی مثال موسلا دھار بارش کی طرح ہے جس سے زمین صاف ہو نے کے بعد پانی کو پی بھی لیتی ہے اور بہت گھاس اور سبزہ اگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی روک لیتی ہے، پھر اللہ تعالی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ، لوگ اس پانی کو خود بھی پیتے  ہیں اور جانوروں کو بھی پلاتے ہیں نیز فصلوں کو آبیاری بھی کرتے ہیں اور کچھ بارش زمین کے ایسے حصے پر ہوتی ہے جو بالکل بنجر میدان ہے، نہ وہاں پانی رکتا ہے اور نہ سبزہ اگتا ہے ، یہ اس شخص کی مثال ہے جو اللہ کے دین کو سمجھ کر اس کا فقیہ بن جائے اور اس کو آگے پھیلائے اور اس شخص کی مثال بھی ہے جس نے اس دین کی طرف سر تک نہ اٹھایا اور مجھے دی گئی اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کیا۔

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی تین اقسام بیان کی ہیں: دو اقسام اچھے لوگوں کی ہیں : ایک قسم سمجھ دار صاحب علم کی ہے جو لوگوں کو بھی دین کی سمجھ دیتا ہے، اور دوسری قسم وہ ہے جو علم کا حافظ ہے لیکن فقیہ نہیں ہے۔

تیسری قسم وہ ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں اور یہ مذموم قسم ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نبی ﷺ نے آپ کی باتوں کو سننے والوں کو مختلف قسم کی بارانی زمینوں سے تشبیہ دی ہے، چنانچہ کچھ لوگ عالم، با عمل اور دوسروں کو سکھانے والے ہوتے ہیں، انہیں زر خیز زمین سے تشبیہ دی کہ زمین پانی جذب کر کے خود بھی فائدہ اٹھاتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔

اور کچھ لوگوں کے پاس علم  ہوتا ہے لیکن دنیاوی امور میں مشغول رہتا ہے، لیکن وہ اضافی اور نفلی  امور میں حصہ نہیں لیتا یا جو کچھ اس نے یاد کیا ہوا ہے اسے سمجھتا نہیں ہے، تاہم یاد کیا ہوا علم دوسروں تک پہنچا دیتا ہے، اس شخص کو ایسی زمین سے تشبیہ دی ہے جس میں پانی جذب تو نہیں ہوتا لیکن جمع شدہ پانی  سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی شخص کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں اشارہ ہے: (اللہ تعالی اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو میری بات سن کر یاد کرے اور پھر اسے دوسروں تک ایسے ہی پہنچائے جیسے اس ن۔ے سنا تھا)

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو علم کی بات سن کر اسے یاد نہیں کرتے اور نہ ہی اس پر خود عمل کرتے اسی طرح آگے بھی نہیں پھیلاتے  تو ایسا شخص بنجر اور شوریلی زمین کی طرح ہے جس میں نہ پانی جذب ہوتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے استعمال کے قابل رہتا ہے۔

نبی ﷺ کی پیش کردہ مثال میں پہلی دونوں قسمیں فائدہ اٹھائے جانے کے اعتبار سے مشترک ہیں، جبکہ تیسری قسم سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا اس لیے اسے الگ ہی رکھا، واللہ اعلم" انتہی

احادیث نبویہ یاد کرنا بھی اسی علم کے ضمن میں شامل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے، نیز حصولِ علم اور لوگوں کے درمیان علم پھیلانے کے متعلق فضائل مشہور و معروف ہیں۔

احادیث نبویہ کو زبانی یاد کرنا  انبیائے کرام کے وارثین علمائے کرام کی صفات میں سے ہے۔

احادیث نبویہ یاد کرنے سے دین کو تحفظ ملتا ہے نیز دین کی اہم بنیاد کی حفاظت ہوتی ہے، اگر اللہ تعالی نے احادیث نبویہ کی حفاظت کیلیے علمائے کرام کو اس جانب نہ لگایا ہوتا تو احادیث ختم ہو چکی ہوتیں، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» صحيح البخاري (100)، وصحيح مسلم (3673).

(اللہ تعالی علم کو  لوگوں کے دلوں سے (یکبارگی) نہیں کھینچے گا بلکہ علمائے کرام کو اٹھا لے گا، یہاں تک کہ کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنے سربراہ منتخب کر لیں گے ، پھر جب ان سے پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دے  کر خود تو گمراہ تھے ہی دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے) ۔

احادیث یاد کرنے کی برکت میں یہ بھی شامل ہے کہ: لوگوں کو احادیث سکھلائی جائیں، احادیث کی نشر و اشاعت سنت  اور علم کی نشر و اشاعت ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنا، احادیث یاد کرنا اور علمی مذاکرہ جنت میں داخلے اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، نیز نبی ﷺ  کا فرمان بھی ہے کہ: "مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"، صحيح البخاري (71)، وصحيح مسلم (1037). (جس شخص کے بارے میں اللہ تعالی خیر کا ارادہ فرما لے اللہ تعالی اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے) ۔

دین کی سمجھ کتاب و سنت کے فہم کے ذریعے  ہوتی ہے، اگر کوئی شخص احادیث سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے بندے سے خیر کا ارادہ فرمایا ہے"  انتہی

اسى طرح رسول اللہ ﷺ نے حدیثیں یاد کرنے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔  امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "مَنْ حَفِظَ عَلَى أُمَّتِي أَرْبَعِينَ حَدِيثًا مِنْ أَمْرِ دِينِهَ بَعَثَهُ اللهُ فَقِيهًا، وَكُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَافِعًا وَشَهِيدًا " شعب الإيمان (3/ 241)۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا : یعنی جو شخص یاد کرے اور پہنچائے میری امت کو چالیس حدیثیں جو ان کے امر دین سے ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن فقہا کے زمرہ میں اٹھائے گا اور میں اس کے لئے اس کے گناہوں کی شفاعت کرنے والا اور اس کی طاعت پر گواہی دینے والا ہوں گا۔(اشعۃ اللمعات ج ۱ ص١٨٦)۔

امام احمد نے بیہقی كى اس روایت کے متعلق فرمایا : "هَذَا مَتْنٌ مَشْهُورٌ فِيمَا بَيْنَ النَّاسِ، وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ "

اور امام نووی نے اپنی اربعین میں کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے طرق متعدد ہیں جس کی وجہ سے اس حدیث میں قوت پیدا ہو گئی۔ (اشعۃ اللمعات جلد ۱ ص ۱۸۷)۔

اس میں شک نہیں کہ ائمہ کبار نے ان حدیثوں کو تلقی بالقبول کے ساتھ اور ان پر عمل کر کے ان کے مقبول اور حجت ہونے کو تسلیم کر لیا کیونکہ علمائے کبار نے سلف و خلف میں اربعینات تصنیف کیں اور وہ حضور ﷺ کی شفاعت اور اپنی مغفرت کے لئے حضور ﷺ کی شہادت کے امیدوار ہوئے۔ 

خلاصہ یہ کہ احادیث رسول اللہ ﷺ کو یاد کرنا اور انہیں مسلمانوں تک پہنچانا ایسی فضیلت اور اجر وثواب کا موجب ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن فقہاء کے گروہ میں اٹھایا جائے گا اور رسول اللہ ﷺ اس کے لئے شفیع اور شہید ہوں گے۔ بشرطیکہ ایمان اور اخلاص کامل کے ساتھ یہ عمل ہو اور مرتے دم تک کوئی ایسا گناہ سرزد نہ ہو جس سے یہ نیکی ضائع ہو جائے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:  "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِيمِ" صحيح البخاري (6607).

اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان، اخلاص اور حسن خاتمہ نصیب فرمائے۔ اٰمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے