رمضان المبارک کی آخری ساعتیں


عبید اللہ شمیم قاسمی

 عبید اللہ شمیم قاسمی 

رمضان المبارک كا مہينہ اپنى تمام تر خير وبركات، رحمت اور بركتوں كے ساتھ ہم پر سايہ فگن ہوا تھا ، ہم ميں سے ہر شخص نے اپنى وسعت كے اعتبار سے حتى المقدور عبادت كى كوشش كى اور الله رب العزت كى رضا كے واسطے دن كا روزه، رات كى تراويح اور قرآن پاک كى تلاوت ميں اپنے اوقات كو گزارا۔ روايت ميں آتا ہے كہ روزه اور قرآن دونوں بندے كے حق ميں قيامت كے دن الله رب العزت كى بارگاه ميں سفارش  كريں گے اور ان كى شفاعت قبول بھى كى جائے گى۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ! إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ، فَيُشَفَّعَانِ". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي "شُعَبِ الإِيمَانِ". [١٩٩٤]، مسند أحمد (١١/١٩٩، رقم: ٦٦٢٦).

 حضرت عبد الله بن عمرو سے مروى ہے كہ  رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا: روزه اور قرآن بندے كے ليے سفارش كريں گے، روزه كہے گا كہ اے رب! ميں نے اسے دن ميں كھانے اور شہوت سے  روكے ركھا تو اس بندے كے حق ميں ميرى سفار ش كو قبول فرما، اور قرآن كہے گا كہ ميں نے اسے رات ميں سونے سے روكے ركھا تو آپ اس كے حق ميں ميرى شفاعت كو قبول فرمائيے تو دونوں كى سفارش قبول كى جائے گى۔


روزه ترک كا نام ہے يعنى رمضان المبارک كے دنوں ميں صبح صادق سے ليكر غروب آفتاب تک  مفطرات ثلاثہ يعنى كھانے، پينے اور جماع سے ركنے كا نام روزه ہے جب كہ نيت كے ساتھ ہو۔

ليكن روزے كے علماء نے بہت سے آداب تحرير فرمائے ہيں، ان ميں سے يہ بھى ہے كہ انسان كے ہر ہر جز كا روزه ہے، زبان كا روزه ہے، آنكھ كا روزه ہے، كان كا روزه ہے،  اسى طرح ہاتھ اور پير كا بھى روزه ہے۔ اسی وجہ سے اگر روزہ رکھ کر ان آداب کی رعایت نہ کی جائے تو یہ صرف بھوکا پیاسا رہنا ہوگا اور کسی کام کا بھی نہیں ہوگا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ» صحيح البخاري (١٩٠٣)

حضرت ابو ہريرة  رضى الله عنه سے روايت ہے كہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا: جس شخص نے جھوٹ بات اور اس پر عمل كرنا ترک نہ كيا تو الله تعالى كو كوئى حاجت نہيں كہ وه اپنا كھانا اور پينا ترک كرے۔

ايک طرف تو روزه كى اتنى فضيلت ہے كہ  الله تعالى فرماتا  ہے كہ روزه كا بدلہ ميں خود دوں گا، بعض روایت میں یہ ہے کہ روزہ کا بدلہ میں خود ہوں؛ كيونكہ بنده اپنا كھانا پينا اور شہوت كو ميرے ليے چھوڑتا ہے جيسا كہ حضرت ابو ہريرة رضى الله عنه كى روايت جو بخارى شريف ميں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: "يَتْرُكُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا» صحيح البخاري، باب فضل الصوم (١٨٩٤).

اور دوسرى طرف  فرمايا كہ صرف بھوكا پياسا رہنے سے كچھ حاصل نہيں ہوگا بلكہ روزه كے آداب كى رعايت ضرورى ہے، شيخ عبد الحق محدث دہلوى اس حديث كى شرح كرتے ہوئے لكھتے ہيں: "فليس لله حاجة" كا مطلب يہ ہے كہ الله تعالى كو اس كى كوئى پرواه نہيں ہے، اور يہ عدم قبول سے كنايہ ہے يعنى اس كا روزه الله كى بارگاه ميں قبول نہيں ہوتا۔ 

علامہ بيضاوى فرماتے ہيں: روزے كى مشروعيت كا مقصد صرف بھوكا اور پياسا رہنا نہيں ہے بلكہ اس سے شہوات كا خاتمہ ہو اور نفس اماره كے اندر نفس مطمئنہ كى اطاعت كى صلاحيت پيدا ہوجائے اور اگر روزے سے يہ چيز حاصل نہ ہو تو  الله تعالى اس كو قبوليت كى نظر سے نہيں ديكھتا۔ اور الله تعالی كو اس كى حاجت نہيں اس سے بھى عدم قبوليت ہی مراد ہے۔

شيخ عبد الحق محدث دہلوى رحمه الله نے اس حديث كى شرح كرتے ہوئے لكھا ہے كہ روزه كى تين اصناف ہيں: 

(١) عوام كا روزه اور  وه كھانے پينے اور جماع سے ركنا ہے۔

 (٢) خواص كا روزه اور يہ تمام حواس كا اس كى شہوات اور لذات محرمہ اور مكروہہ سے ركنا ہے بلكہ مباح چيز ميں بھى انہماک سے ركنا ہے جو نفس كو توڑنے كے منافى ہو.

اور نمبر(٣) خواص الخواص كا روزه اور يہ الله تعالى كے علاوه سے ركنا ہے اور الله كے علاوه كى طرف بالكل التفات نہ ہو اور اس كے ما سوى سے تعلق  نہ ہو۔ لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح (٤٣٨/٤)۔

اب اگر ہم نے رمضان المبارک کو ان آداب کے ساتھ گزارا اور رمضان المبارک میں مغفرت کے جتنے بھی مواقع ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو بجالا تو ہم کامیاب ہوں گے ورنہ اگر تمام مہینوں کی طرح یہ مہینہ بھی غفلت کے ساتھ گزر گیا اور ہم اپنی بخشش نہ کراسکے تو ہمارے لیے بہت خسارے کی بات ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور متعدد صحابہ سے مروی ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ، وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ، وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الجَنَّةَ» سنن الترمذي (٣٥٤٥)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خاک آلود ہو یعنی ہلاک ہو وہ شخص کہ جس سے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ اور خاک آلود ہو یعنی ہلاک ہو وہ شخص کہ جس پر رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہوا اور پھر وہ مہینہ ختم ہوگیا قبل اس کے کہ اس کی مغفرت ہو، یعنی رمضان المبارک میں جب کہ مغفرت کے بہت سے مواقع ہیں مگر اس نے اپنی لاپرواہی سے ان مواقع کو گنوادیا اور اس کی مغفرت نہ ہو سکی۔ اور خاک آلود ہو یعنی ہلاک ہو وہ شخص کہ اس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور وہ ان کی اس قدر خدمت نہ کرسکا کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔

بعض روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھتے ہوئے پہلے زینے پر آمین کہا اور دوسرے پر بھی آمین کہا اور تیسرے پر بھی آمین کہا اور فرمایا حضرت جبریل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے مذکورہ بددعا کی۔

دونوں روایت کا حاصل یہی ہے کہ رمضان المبارک جیسا مقدس مہینہ جس میں رحمتوں کا مسلسل نزول ہوتا ہے اور مغفرت کے مختلف مواقع آتے ہیں اس کے باوجود اگر غفلت اور سستی ولاپرواہی کی وجہ سے مغفرت سے محروم رہ جائے تو اس سے زیادہ اور کوئی وقت نہیں ملے گا اور اس شخص کے لیے ہلاکت وبربادی ہے۔

اس لیے ہمیں اپنی عبادت کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت سے مغفرت بھی طلب کرنی چاہیے۔

اب تو رمضان المبارک بالکل ختم ہو رہا ہے اس لیے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔

اللہ تعالی ہمیں اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے