موجودہ حالات میں گھروں پر عید!


موجودہ حالات میں گھروں پر عید!


مفتی اسعداللہ سلطانپوری 

اس عنوان کو دیکھ کر ہمیں لگا تھا کہ مفتی صاحب نے عید پر کچھ لکھا ہوگا، لیکن جب پڑھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ عید پر نہیں، بل کہ عیدمعاف کرانے پر لکھا ہے، اور پھر بہت شدت سے یہ دل چاہنے لگا کہ کاش ہمارے مفتی صاحب کا سال لگا ہوتا، تاکہ امت کے احوال اور امت کے درد کا مفتی صاحب کو صحیح ادراک ہوتا،

       کیا بتاؤں ہمارے یہ مولوی بھائی لوگ ہماری اس بات کو سنیں گے تو فورا غلو کا حکم لگا دیں گے، لیکن کیا کریں کہنا ہی پڑتا ہے، اور جو بھی امت میں گھسے گا اور امت میں گھس کر امت کے درد کو سمجھے گا، وہ ہماری اس بات کو بھی سمجھے گا، اس کے اعتدال کو بھی سمجھے گا، اور اس کے وزن کو بھی محسوس کرے گا،

        ہمارے اس ملک میں ایک حیرت انگیز امر اور انتہائی حیرت انگیز امر، بل کہ انتہائی حیرت انگیز امر سے بھی زیادہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ:

         حنفیہ کے یہاں جمعہ فی القری کی کڑی شرطوں کے باوجود حنفیت کے اس پورے ملک کے طول و عرض میں اندر سے اندر کے، گئے گزرے سے گئے گزرے دیہاتوں میں جمعے قائم ہیں، خدا معلوم ان جمعوں کی ابتدا کن مخلصین کے ہاتھوں ہوئی تھی کہ تمام علمائے دیوبند کے جمعہ فی القری کے مسئلے میں شرائط کے بغیر عدم جواز جمعہ پر اتفاق کے باوجود آج تک ہمارے علم میں کوئی اللہ والا، کوئی مصلح یا کوئی اصلاحی تنظیم ایسی نہیں وجود میں آئی، جس نے ان شرائط سے خالی  جمعوں کو بند کرانے کی کوشش کی ہو، یا ان کے جواز کا ہی فتوی دیا ہو،

       دماغ حیران ہے کہ پوچھا جائے، یہ جمعے، قری بلا شرائط کے، جائز ہیں؟ تو جواب ہے کہ شرائط کے بغیر جواز نہیں، اور پوچھا جائے کہ پھر بند کیوں نہیں کرایا جاتا؟ تو جواب ہے کہ جو جمعے بلا شرائط پرکھوں کے زمانے سے چلے آرہے ہیں ان کو بند نہ کرایا جائے،

      اور ہمارے ان گمنام بزرگوں کا عند اللہ مقبول، عجب اخلاص تھا کہ آج ہمارے ملک کی اس امت کا دیہاتوں میں آباد اکثر طبقہ صرف ان ہی جمعوں سے مسلمان ہے، ورنہ ان کے پاس اسلام کی نشانی میں اس کے سوا کچھ بچا ہوا نہیں ہے،

اس موقعے پر ایک واقعہ لکھنے کو جی چاہ رہا ہے، جو موقع کے مناسب ہے:

       2003 میں جب میں سلطان پور کے دیہاتوں میں چار ماہ میں پھر رہا تھا، ہم سب ایک گاؤں کی مسجد میں دروازہ کھول کر داخل ہوے، ابھی سامان رکھ ہی رہے تھے کہ مسجد کے باہر عورتوں، بچوں اور بوڑھیوں کی ایک بھیڑ جمع ہو گئی، اور اس وقت سر کے دائیں اور بائیں لگے کانوں نے دنیا کے عجائبات میں ایک عجب اور بڑا عجب یہ بھی سنوایا کہ:

       ایک بوڑھی بکمال حیرت واستعجاب منھ پر ہاتھ رکھ لر کہ رہی تھی:

        ائے بہنی مہجتیا تو جما جما کھلت رہی، ای بچوا ماں آئے کے کھول دہین ہیں،

      ( ارے بہن مسجد تو جمعہ جمعہ کھلا کرتی تھی، ان لوگوں نے آکے درمیان ہفتہ میں کھول دیا ہے، )

       اسی لیے ہم نے ان حالات کے شروع سے ہی اس بات کی دعوت --جتنا ہو سکا-- پوری قوت سے دی ہر دو چار گھروں کے درمیان نماز کے ٹھیہے قائم کیے جائیں جہاں پنج وقتہ جماعت اور جمعہ قانون کی رعایت کے ساتھ قائم کیا جائے، اور قانون کی پوری رعایت کے ساتھ لوگوں کو اللہ اور کے دین سے جوڑنے کہ پوری محنت کی جائے، ورنہ جمعہ اور عید کے سوا جن کے پاس اسلام کی اور کوئی نشانی نہیں ان حالات کے ختم ہونے تک نہ جانے ان۔کا کیا حشر ہو چکا ہوگا، چناں چہ ہماری گلی میں متعدد جمعے قائم ہوے، اور جب میں خود کورن ٹائن سے فارغ ہو کر سلطان پور واپس آیا تو اس عمل میں اور تیزی آئی،

        اور کل کے جمعہ میں ہمارے ماتھے پر لگی آنکھوں نے دیکھا کہ جن غریبوں کو ان احوال میں پہلی مرتبہ جمعہ ملا تھا ان کے سینے 56 انچ کے نہیں، 65 انچ کے ہو رہے تھے، ائے کاش کہ گوشہ عافیت والے امت کے عموم میں گھستے اور امت کے اس "اسلام پیار" کو دیکھتے اوراس لطف اندوز ہوتے،

      2003 کے مذکورہ بالا سفر میں، ایک گاؤں میں گاؤں کی آبادی سے الگ تھلگ ہم نے دو گھر دیکھے، پوچھا یہ گھر کن کے ہیں؟ مقامی احباب نے کہا یہ کنکالیوں کے گھر ہیں، میں نے کہا وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ؟ پھر ان کا جواب تھا:وہ کنکالی ہیں، ہم نے متعدد بار مذہب کے سوال کو دہرایا، ہر بار جواب تھا: کنکالی ہیں، تو مجھے غصہ آگیا میں نے کہا بندگان خدا آخر تو ان کا کسی مذہب سے تعلق ہوگا، ان کا نام کیا ہے؟ تو نام بتایا گیا: دل دار اور عبد الستار، پھر تو ان مقامی احباب کو میں جو کچھ سنا سکتا تھا سنایا، اس کے بعد ان گھروں کی طرف آیا، وہ دونوں گھر پر تو نہ ملے، میں اور  آگے بڑھا تو سامنے سے دل دار آگیا، سلام ودعا کی رسمی گفتگو کے بعد میں نے دل دار سے بات شروع کرتے ہوے صرف اتنا کہا تھا کہ "اللہ کا کرم ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں مسلمان بنایا ہے" ،

         میرے اس جملے کے پورا ہونے سے پہلے اس دل دار نے اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوے بکمال افتخار بڑے غرو سے کہا:  ہاں ہاں ہم بھی مسلمان ہیں،

       اسلام کی ہر طرح کی ظاہری علامات سے خالی، آبائی مسلمانوں کی زبان میں "کنکالی" اور ان کا سینہ اس اسلام پر افتخار سے آباد ہے،

       خدا گواہ کہ اس کے بعد سے جب کبھی وہ "دل ربا دل دار" یاد آتا ہے اس کی کیفیت افتخار کی لذتوں سے دل سر شار ہوجاتا ہے، اور سرشاری کی یہ لذت خدا معلوم کتنی ہی روحانی لذتوں پر غالب آجاتی ہے، اور ان بھولے بھالے دین اور علم دین سے کوسوں دور مسلمانوں کے سامنے سر شرم سے جھکا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے اور یوں لگنے لگتا پے کہ یقینا ہم بڑے مجرم ہیں،

      الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا،

       ہمارا احساس یہ ہے کہ جو شخص امت کے اس درد سے ادنی واقفیت رکھتا ہو، اور وہ ان حالات میں ان بلا شرائط دیہاتوں کے جمعوں کو بھی گھر گھر قائم کرانے پر مصر ہو جائے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے، --اور ہمارے یہاں سلطان پور کے دیہاتوں کے بعض نوجوان علماء مصر بھی رہے-- چہ جائے کہ شہروں میں وجوب جمعہ کے باوجود مسجد کے باہر قیام جمعہ پر گفتگو ہو،

      یہاں یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہمارے اس زمانے میں شہروں کی عوام وہی عوام ہے جو دیہاتوں سے اٹھ کر آئی ہوئی ہے بل کہ بسا اوقات دیہاتوں میں رہ رہی عوام سے زیادہ گنوار یہ شہروں کی عوام ہوتی ہے،

      اس لیے ہر سمجھ دار کا فرض ہے کہ وہ اس وقت اس بات کی محنت کرے کہ شہری علاقوں کا ہر ہر فرد جمعہ اور عید کی نماز ادا کرے، اور امت کی اس عوام کے اسلام کو بچائے جن کے پاس اسلام نام کا صرف جمعہ ہے، بل کہ ایک طبقے کے پاس اسلام نام کی صرف عید ہے، اور اگر خدا نہ خواستہ یہ افراد عید سے محروم ہوے تو سال بھر ان کے پاس اسلام نام کا کچھ نہیں بچے گا،

     البتہ جہاں شرائط نہیں ہیں، وہاں جو بھی بدل ہو اسے پیش کیا جائے،

رہ گیا یہ کہ اتنے امام کہاں سے آئیں گے؟ تو جو بھی اپنی نماز پڑھنا جانتا ہے وہ جمعہ پڑھا سکتا ہے، اور دونوں خطبوں میں سورہ فاتحہ کا پڑھ دینا قیام جمعہ کی شرط کو پورا  کرنے کے لیے کافی ہے،

      رہ گئی عید تو وہ بھی کیا مشکل چیز ہے، جو نماز ہم روزانہ پڑھتے ہیں اس میں چھ مرتبہ اللہ اکبر ہی تو زائد ہے اور کیا فرق ہے؟ پہلی رکعت میں ثناء کے بعد تین مرتبہ اللہ اکبر کہنا ہے، اور دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے تین مرتبہ  اللہ اکبر کہنا ہے، یہ کون نہیں کر سکتا ہے، قوم کو بات ہلکی کر کے سمجھائی جائے، ان شاء اللہ اللہ پاک بہت سے امام دیدے گا، اور مخلصانہ کوشش کی گئی تو کچھ فرق تو ان شاء اللہ بہر حال پڑے گا_

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے