ہجومی تشدد، پسِ منظر اور تاریخ

موب لنچنگ، ہجومی تشدد، گئو رکشک

آج کا دن(2 جون) سیکولر بھارت کے ماتھے پر کلنک اور دامنِ ہند پر ایک بدنما داغ ہے، اسی دن سرزمین ہند پر زعفرانی دہشت گردوں کی جانب سے منصوبہ بند طریقے پر ‏ہجومی تشدد کا آغاز ہوا، یہ دن جس طرح مسلمانوں کے لیے ایک المناک یادگار ہے اسی طرح صدیوں پرانی ہندی سیاست و تہذیب کی پلٹتی بساط کا مقدمہ بھی....

ہندوستان میں ہجومی تشدد (mob lynching) کو تنظیمی سطح سے انجام دینے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا باقاعدہ آغاز 2014 میں ہوا ہے؛ لیکن اس مختصر سے عرصے میں اس غیر انسانی اور بہیمانہ کارروائی نے جو عروج اور پذیرائی ہندستان میں حاصل کی ہے، اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔

اگر ہم عالمی تناظر میں اس کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، بلکہ اس کا اصل طرز و رواج اسی دور کا حصہ ہے، جسے پتھر کا دور کہا جاتا ہے؛ کیوں کی ابتداۓ افرینش سے یہی اصول چلتا آ رہا تھا، کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، ہجوم کے مقابلے منفرد کی یہی حیثیت تھی کہ ہجوم اس تنہا کے ساتھ جو چاہے کرے، لیکن اس عموم کے باوجود اسے "جدید" شکل نہ مل سکی تھی اور یہ بہیمانہ عمل مہذب لوگوں کے ساتھ مل کر "تہذیب یافتہ" نہ ہوا تھا۔

اس کی مہذب شکل کو دیکھنے کے لیے ہمیں عصر تنویر اور عہد جدید کے بعد کی تاریخ دیکھنی ہوگی، اور جب ہم تاریخ کا یہ ورق پلٹتے ہیں، تو ہمیں شدید حیرانگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح بہت سی دوسری برائیاں انگریزی غلبہ و استعمار کا نتیجہ ہیں، اس ہجومی تشدد کا خمیر بھی اسی مہذب و تعلیم یافتہ سر زمین سے اٹھا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل سے قبل..... ہمیں جمہوری سیاست دانوں کے متعلق یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ ان لیڈران نے اپنے اقتدار کی حفاظت و بقا کی خاطر ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے، جو کچھ ان سے بن پڑا وہ کیا، حتی کہ خود اپنے اہل خانہ اور برادران کے قتل سے بھی دریغ نہ کیا۔

اسی ذیل میں ایک پرانا اور مجرب طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ جہاں دو مختلف طبقات رہتے ہیں وہاں اکثریت کو یہ یقین دلا دیا جائے، کہ انہیں یا ان سے متعلق کسی اہم شے کو اقلیت سے خطرہ ہے۔

چنانچہ اس ہجومی تشدد کی طرح ڈالنے میں بھی اس پروپیگنڈا یا ذہن سازی کا بہت بڑا ہاتھ ہے؛ بات اس وقت کی ہے جب امریکہ میں اٹھارویں صدی کی تکمیل کے بعد وہاں کی سیاہ فام آبادی کوئی احساس ہونے لگا کہ وہ بھی انسان ہیں ان کے بھی کچھ حقوق ہیں جس کے نتیجے میں انہوں نے مختلف ذرائع سے اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کر دیا ابتدا میں انگریز حکومت (جو کہ طاقتور اور مغرور تھی) کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اپنی دنیا میں مست رہی؛ لیکن سیاہ فاموں کی صدائیں روز بروز بڑھتی اور بلند ہوتی گئیں اور پہلے کی نسبت انہوں نے پرزور طریقے پر اپنے حقوق کا مطالبہ شروع کر دیا اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومتی سرپرستی میں ایک پروپیگنڈا شروع کیا گیا کہ "بلیکس کی طاقت بڑھنے لگی ہے، انہوں نے پورے امریکہ پر غلبے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا ہے،" ان افواہوں کے ساتھ حکومت نے سیاہ فاموں کے خلاف بناۓ گئے بعض قوانین بھی منسوخ کر دیئے، تاکہ محسوس ہو کہ سرکار بھی ان کے عزائم سے مرعوب ہے۔

اس دو طرفہ عمل کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے آیا، چنانچہ یہ حالات 1850 کے قریبی برسوں کے ہیں، اس کے بعد فقط دس برسوں میں امریکی سفید فام عوام کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ، ان کی تہذیب، ان کی حکومت اور سب سے بڑھ کر ان کا ملک خطرے میں ہے، (جو درحقیقت ان کا نہیں تھا) اور اسی خطرے کے خوف میں بعض متشددین سفید فاموں نے 1865 میں Ku Klux Klan یا KKK کے نام سے ایک دہشت گرد تنظیم قائم کی، جس پہ ظاہری عنوان سوشل ورکنگ کا تھا لیکن اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ کو وائٹ راشٹر اور کلرڈ مُکْتْ امریکہ بنانا تھا، جہاں صرف سفید فام رہ سکتے، سیاہ فاموں کی اُس ملک میں کوئی جگہ نہ ہوتی۔ 

تنظیم بنانے کے بعد، ابتدا میں یہ سیاہ فاموں پر نگاہ رکھتے، ان کے معاملات میں دخل اندازی کرتے اور ان کے کاغذات وغیرہ چیک کرتے، لیکن کچھ عرصے میں ان کی ہمت مزید بڑھ گئی، جس سے یہ اکثر و بیشتر سیاہ فاموں کے خلاف ریلیاں نکالتے، انہیں راہ چلتے پریشان کرتے، گالی گلوج اور بدتمیزی کرتے۔

رفتہ رفتہ وہ وقت آگیا، جب انہوں نے سیاہ فاموں کے خلاف کھل کر محاذ سنبھال لیا، اور امریکہ میں اس عہد کا آغاز ہوگیا، جس عہد میں کسی بھی ملک کو لنچنگ اسٹیٹ یا لنچستان کہنا زیادہ مناسب ہوتا ہے، چنانچہ ان کا طریقۂ کار یہ تھا کہ کسی سیاہ فام کو تنہا پا کر کوئی نسل پرستانہ نعرہ یا کوئی جھوٹا الزام بلیک پر لگاتے اور ساتھ ہی اس پر حملہ کر دیتے، ان کے نعرے اور جملے سے عوام بھی مشتعل ہو جاتی اور ان کے بہیمانہ عمل میں شریک ہو جاتی اور لمحوں میں اس بے قصور کو بے جان کر دیتی۔

 1865 سے 1880 تک اس تنظیم نے اس قدر عروج پا لیا کہ امریکہ جیسا سیکولرزم کا علم بردار ملک لنچستان بن گیا، حالات اس قدر خراب ہوتے گئے کہ 1882 میں امریکی عدلیہ کو اس پر پابندی لگانی پڑی، جس سے اس کا زور مدہم ہوا، لیکن طاغوت کے خاکستر میں نسل پرستی(racism) کی چنگاری ابھی زندہ تھی، چنانچہ چند برسوں کی خاموشی کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں یہ گروہ دوبارہ منظر پر آیا، اور پہلے سے زیادہ شدت اور تیاری کے ساتھ آیا، 1915 سے 1920 کے دوران اس کا نشہ اس قدر بالا ہوا کہ امریکا بھر میں اس کے ممبران کی تعداد 4 ملین سے زائد ہو گئی اور اب یہ اِکّے دُکّے بندے پھڑکانے کے بجائے، پوری جماعت کو خاک و خون میں لت پت کردیتے تھے اور ان کی ہمہ گیری نے 60-1950 کے درمیان ملک کو نسل پرستانہ فسادات اور ملک گیر تشدد کی آگ میں جھونک دیا۔

 اس صورتحال کے بعد امریکی لیڈران کو خطرے کا احساس ہوا، امریکی عوام کے دماغ سے دیش بھکتی اور نسل پرستی کا بھوت اترا، اور چوطرفہ مخالفت کے بعد اس تنظیم کو تحلیل کر دیا گیا، کچھ متشدد ممبران پر کارروائیاں ہوئیں، کچھ گرفتار ہوئے، جس کے بعد اس کے جڑیں کمزور ہو گئی اور آخر کار 1990 کے قریب یہ تنظیم ایک طرح سے تاریخ کا حصہ بن گئی۔

لیکن بہرحال..! عہد جدید میں ہجومی تشدد کو فروغ دینے، اس کے لیے طریقۂ کار مہیا کرنے، اسے منتشر طرز کے بجائے اجتماع و تنظیم کے ساتھ مہذب و ترقی یافتہ شکل میں پیش کرنے میں اس تنظیم کا جو کردار ہے، وہ اُسے اِس نئے دور میں ہجومی تشدد کا موجد کہلانے کے لیے کافی ہے۔

اس کے اسی کردار کا نتیجہ تھا کہ اس تنظیم کے منظر پر آنے کے بعد مختلف ممالک میں اس قسم کی تنظیمیں بننی شروع ہوئیں اور انہوں نے مخالف طبقات کے مقابلے انہیں خطوط پر کام کیا، جو خطوط اس تنظیم کے نقوشِ قدم کا ثمرہ تھے، چنانچہ جرمنی میں 1930 کے بعد ہٹلر کے دور حکومت میں کئی ایسی تنظیمیں رو نما ہوئیں، جو امریکہ کی KKK کے خد و خال کو لائحۂ عمل مقرر کر کے یہودیوں کو تختۂ مشق بناتی رہیں، اسی طرح سری لنکا کی ایک بدنام زمانہ تنظیم نے 1983 کے بعد KKK کی جی کھول کر پیروی کی، اور تمل (tamilians) کے خلاف اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کیا، اس کے علاوہ 1994 میں روانڈا (Rwanda) میں اس تنظیم کے خطوط ابھارے گئے اور نفسانی خاکوں میں انسانی خون سے رنگ آمیزی کی گئی۔

اور پھر ہجومی تشدد کے اس عفریت نے ہندستان کا رخ کیا، 2014 میں کچھ لوگوں کی من چاہی حکومت بنتے ہی اُن خاکوں میں رنگ بھرا گیا، جو KKK کی عملی رہنمائی میں تیار کیے گئے تھے، لیکن ہنوز تشنۂ تکمیل تھے، یہاں بھی اجزائے ترکیبی وہی استعمال ہوۓ، جو سوا صدی قبل امریکا میں استعمال ہوۓ تھے، لیکن یہاں مذہبی اختلاف نے نسل پرستانہ نشے کو سہ آتشہ کر دیا، فسطائی حکومت اور زعفرانی گروہوں اور دَلوں نے ملک کی اکثریت کو خطرے کا احساس دلایا، اور انہیں باور کرایا کہ ملک کی نیم خواندہ، کمزور، نِہتّی اور بے عمل اقلیت سے انہیں، ان کی تہذیب اور ان کی گئو ماتا کو خطرہ ہے، اور نتیجتاً کچھ سوشل ورکر گئو رکشک اور رام سیوک بن کر سامنے آئے، اور ملک کو یکے بعد دیگرے ہونے والے ہجومی تشدد کی آگ میں جھونک دیا، اپنے سپریم لیڈر کے لیے ہر قسم کا چین، سکون اور امن و امان قربان کر دیا، اور اپنے بہیمی جنون میں اس بزدلانہ عمل کے موجدین سے آگے بڑھ گئے۔ 

 اس انسانیت سوز عمل کا نہ تھمنے والا سلسلہ ایک طرف ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، تو دوسری طرف اس بات کا سبق بھی، کہ عمل کا رد عمل بھی ہوتا ہے، ہجوم کے بدلے بھی ہجوم تیار کیا جاسکتا ہے۔ 


ابن مالک ایوبی


#MobLynching

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے