خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح:دوسرا پارہ دوسری تراویح


خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح:دوسرا پارہ دوسری تراویح
دوسرے پارہ کی ابتدا ہوتی ہے تحویل قبلہ کے ذکر سے۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تقریبا سولہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔
 لیکن آپ کی دلی آرزو یہ تھی کہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا جائے جو کہ ملتابراہیمی کا ایک حسی اور ظاہری شعار تھا، آپ کی قدیمی آرزو کی تکمیل یوں ہوئی کہ اللہ تعالی نے تحویل قبلہ کا حکم نازل فرمادیا تحویل قبلہ کا کم نازل ہونے کے بعد یوں تو مشرکوں اور منافقوں نے بھی بے بنیاد اعتراضات اٹھائے۔ لیکن اس معاملے میں یہود پیش پیش تھے وہ بظاہر بڑے تعجب سے لیکن حقیقت میں اعتماد کی بنا پر کہتے تھے انہیں کس چیز نے اس قبلہ سے پھیر دیا جس کی طرف رخ کر کے یہ پہلے عبادت کیا کرتے تھے اللہ نے اپنے نبی کو حکم  دیا آپ فرما دیجئے کہ ساری سمتیں خواہ مشرق ہو یا مغرب اللہ ہی کی ہیں،
پس اسے اختیار ہے جس سمت کو چا ہے قبلہ مقرر فرمادے گویا یوں کہا گیا کہ ساری جہات اللہ تعالی کی ملکیت ہیں کسی بھی جہت کو دوسری جہت پر اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی فضیلت
حاصل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جہت خود  قبلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے،بلکہ وہ اللہ کے حکم سے قبلہ بنتی ہے، لھذا تحویل قبلہ کے بارے میں ان کے اعتراضات کی کوئی حقیقت نہیں ، 
اللہ کی طرف توجہ :  یوں بھی اصل اہمیت کی جہت کی طرف توجہ نہیں بلکہ اصل اہمیت اللہ کی طرف توجہ کو حاصل ہے۔ 
حضور کا حسن ادب :ان آیات کے مطالعہ سے اللہ تعالی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ادب بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت اشتیاق اور انتظار وحی میں بار بار آسمان کی طرف اپنی مبارک نگاہیں اٹھاتے تو تھے مگر تحویل قبلہ کا سوال نہیں کرتے تھے کہ شاید الله جل شانہ کا فیصلہ اور اس کی رضا عدم تحویل ہی میں ہو،
نعمت عظمیٰ : شاید اسی مناسبت سے اللہ تعالی نے تحویل قبلہ کا حکم دینے کے فورا بعد اہل ایمان پر اس نعمت عظمیٰ کا ذکر فرمایا ہے جو انہیں سراج منیر اور بشیر و نذیر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی صورت میں عطا ہوئی،

احسان عظیم :

(1)مستقل قبلہ کا تعین بھی اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہے
(2) اور ہدایت کے لیے عظیم الشان رسول کی بعثت بھی بے مثال احسان ہے ۔ (بقرہ:151)
 پوری زندگی کا رخ :تحویل قبلہ کی بحث کو سمیٹتے ہوئے آخری اور فیصلہ کن بات جو ارشاد فرمائی گئی ہے اس کاحاصل یہ ہے کہ حقیقی نیکی کا معیار مشرق و مغرب کی طرف رخ کرتا نہیں بلکہ حقیقی نیکی کا معیار یہ ہے
(3) کہ علقائد ، اعمال ، معاملات اور اخلاق سب کا رخ صحیحی ہو،
 (4)اللہ کو راضی کرنے کے لیے صرف چہرے کا رخ ہی نہیں بلکہ دل اور پوری زندگی کا رخ بھی بدلنا ہوگا ،
اصل نیکی : جو اللہ پر  آخرت کے دن پر فرشتوں پر آسمانی کتابوں پر اور انبیاءعلیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اپنے قرابت داروں یتیموں مسکینوں اور سوال کرنے والوں کی مالی مددکرتے ہیں قیدیوں اور غلاموں کو آزاد کرواتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں زکوٰةادا کرتے ہیں جب وعدہ کرتےہیں تو پورا کرتے ہیں تنگی اور تکلیف میں صبر کرتے ہیں پوری زندگی کا رخ صحیحی کرتے ہیں    

دین اسلام مذہبی رسوم کانام نہیں:

اس آیت کو علما کرام نے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے کم و بیش سولہ قواعد اخذ کیے ہیں ۔ اس آیت کر یمہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام محض چند ایسی مذہبی رسوم کا نام نہیں ہے جنہیں عبادت خانے اور خانقاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس دین کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے، یہ ہر جگہ انسان کے ساتھ رہتا ہے: گھر میں بھی ،اور بازار میں بھی، مسجد میں بھی، اور مدرسہ میں بھی ، سیاست و حکومت میں بھی، اور تجارت و معاشرت میں بھی ، یہ مسلمان کی ہر جگہ نگرانی کرتا ہے اور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم اسے دیکھ کر اٹھا ئے ۔
آیت بر : اس آیت کر یمہ کو ،آیت پر؛ کیا جاتاہے اور اس کے بعد جو احکام و مسائل بیان کیے گئے ہیں انہیں ابواب بر کہا گیا ہے ، گویا پہلےاجمالی طور پر نیکی کے اصول بتانے کے بعد آ گے ان کی جزوی تفصیلات اور احکام ذکر کیے گئے ہیں، یہ احکام مسلمان کی معاشی ، معاشرتی ، تجا رتی از دواجی اور جہادی زندگی سے تعلق رکھتےہیں ، یہ احکام ہم اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔
(ان میں سے دو حکم ایسے ہیں جو آیت بر سے پہلے ذکر ہو چکے ہیں)
(1)صفا،مروہ:چونکہ زمانہ جاہلیت میں صفا مروہ پر بت رکھے ہوئے تھے جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے اس لیے قبول اسلام کے بعد صحابہ کرام صفا مروہ کا طواف کرنے سے بچتے تھے، اس لیے فرمایا گیا کہ ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں (158)
(2) حرام اشیاء:مشرکین از خود بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام ٹھرا لیتے تھے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:( حرام وہ چیزیں نہیں جنہیں تم حرام کہتے ہو ) بلکہ اللہ تعالی نے تو صرف ان چیزوں کو حرام کیا ہے،مردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور ہر ایسا جانور جس پر اللہ تعالی کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو،
استثنیٰ: البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھالے تو اسے چکھ بھی گناہ نہیں ہوگا۔ 
شرط: لیکن شرط یہ ہے کہ کھانے سے مقصد حصول لذت نہ ہو اور نہ بھی قیدر ضرورت سے تجاوز کرے، واقعی الله تعالی بڑا غفور و رحیم ہے۔“ (173)
(3) قصاصمیں زندگی:شریعت اسلامیہ کی بنیاد عدل پر ہے، اسی لیے مسلمانوں پر قصاص فرض کیا گیا ہے یعنی مقتول کے بدلے قاتل کو بھی قتل کیا جائے گا، چاہے مقتول اور قاتل کے درمیان سماجی ، خاندانی ،مالی اور جسمانی اعتبار سے کتنا ہی تفاوت کیوں نہ ہو، قصاص من زندگی ہے ، قاتل کی بھی اور مقتول کی بھی ، جب قاتل کو اپنے جرم کی سزا ملنے کا یقین ہو گا تو وہ شدت غضب کے باوجود اپنا ہاتھ قتل سے روک لے گا اس کے رک جانے سے مقتول اور قاتل دونوں بلکہ ان کا خاندان بھی قتل وقتال سے بچ جائےگا 
عدل : اسلام نے قتل کی سزا میں رحمت اور عدل دونوں چیزوں کو جمع کردیا ہے۔ مقتول کے اولیاءاور ورثاء اگر قصاص کا مطالبہ کریں تو یہ عدل ہو گا،
رحمت : اور اگر وہ معاف کردیں۔ یا دیت لینے پر راضی ہوجائیں تو فضل و احسان اور رحمت ہوگی ۔ (178,189)
(4)وصیت :ایسا صاحب مال جیے اپنی موت قریب آ جانے کا احساس ہو جائے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال کے بارے میں وصیت کر جائے۔ (180)
(5)روزہ کا مقصد:ہر عاقل بالغ مسلمان پر روزے فرض ہیں، روزے اگر واقعی تمام آداب کا لحاظ رکھتےہوئے رکھے جائیں تو انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کے ساتھ انسانی احساسات کو بھی بیدار کرتےہیں
فضیلت رمضان :جس مہینے میں روزے فرض کیے گئے ہیں اسے یہ خصوصیت اور فضیلت بھی حاصل ہے کہ اس میں قرآن جیسی عظیم الشان کتاب نازل ہوئی۔مسافر اور بیماروں کو روزہ چھوڑنے اور قضا کرنے کی اجازت ہے(183-185)
(6) رمضان اور مباشرت:(1) رمضان کی راتوں میں بیوی کے ساتھ جماع جائز ہے ۔دن میں نہیں ۔(2) لیکن اعتکاف کی حالت میں نہ  رات کو جائز ہے اور نہ دن میں ۔ (186-187)
(7) نا جائز کمائیا کسی بھی باطل اور ناجائز طریقے سے مال کمانا جائز نہیں خواہ وہ جوا ہو یا چوری ، ڈاکہ غصب رشوت اور سودی کاروبار ہو یا خرید وفروخت کے ناجائز طریئے۔(188)
(8)قمری تاریخ:قمری تاریخوں کا استعمال فرض کفا یہ بھی ہے اور اسلامی شعار بھی کئی عبادات کا مدار ان کی معرفت پر ہے۔ (,189)
(9)جہاد و قتال مسلمانوں پر جہاد و قتال فرض ہے۔ جہاد کا مقصد اعلاء، کلمة اللہ ہے چونکہ حق  اور باطل خیر اور شر کے درمیان ٹکراو ازل سے ہے، اور ابد تک رہے گا ، اس لیے جہاد بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ جہاد کے لیے ہمیشہ مستعد رہیں اور دشمن کے سامنےکمزوری ظاہر نہ کریں ورنہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے سوا کچھ نہیں ۔ ( 190-195)
(10) حج :. اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن حج بھی ہے، 
حج کا مقصد :الله تعالی چاہتے ہیں کہ پوری دنیا سے.  مسلمان سال میں ایک بار مساوات کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بلد حرام میں  جمع ہوں اور وہاں اس کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق حج کے مناسک اور اعمال ادا کریں،
احرام : حج کا احرام چند مخصوص مہینوں میں باندھا جاتا ہے۔ 
عمرہ :البتہ عمرہ پورے سال میں کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے،
حج میں خریدوفروخت :حج کے دنوں میںتجارت اور خرید وفروخت جائز ہے، 
بدعات حج :زمانہ جاہلیت میں مشرکوں نے بہت ساری رسوم اور بدعات کا اضافہ کر لیا تھا،
بدعت :1 جن میں سے ایک یہ کی کہ قریش ، مزدلفہ میں ہی ٹھہر جاتے اور میدان عرفات میں جانا اپنی توہین سمجھتے تھے،انہیں حکم دیا گیا کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح عرفات جا کر واپس آئیں اور اپنے لیے کوئی الگ تشخص ثابت نہ کریں ۔
بدعات :2 یونہی مشرکین منیٰ میں جمع ہو کر آباء اجداد کے مفاخر بیان کیا کرتے تھے 
حکم :
انہیں کہا گیا کہ وہ آباء کی بجائے اللہ کا ذکر کریں ۔ (196-200)
(11) انفاق فی سبیل اللہ :اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ اہمیت اس بات کو حاصل نہیں کہ کیا خرچ کیا جا تا ہے ، اصل اہمیت اس امر کو حاصل ہے،
(1) کہ کہاں خرچ کیا جاتا ہے 
(2)اور کس نیت سے خرچ کیا جا تا ہے 
(3) لہذا اللہ کے دیئے ہوئے جان و مال کوصحیح مصرف پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ (215)
(12)  مرتد کی سزا :
(1)جو شخص مرتد ہوجائے (یعنی دینے اسلام سے فر جائے )اس کے سارے اعمال باطل ہو جاتے ہیں
(2) اور وہ جہنم کا حق دار ہو جا تا ہے
(3) اور دنیا میں اس کی سزا یہ ہے کہ اگر وہ سمجھانے کے با وجود باز نہ آ ئے تو اسے قتل کردیا جائے۔ (217)
(13)شراب اور جوا:
 شراب اور جوا میں اگر چہ ظاہری اور مادی منافع ہیں لیکن ان میں جسمانی عقلی ، مالی ، اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے جو نقصانات ہیں وہ منافع کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، 
ام الخبائث: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو ؛ام الخبائث؛ کی خباثتوں اور گناہوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ (۲۱۹)
ازدواجی زندگی : بعض اجتماعی بیماریوں کی نشان دہی کے بعد خاندانی مسائل بیان کیے جارہے ہیں کیونکہ خاندان کی ایک اچھے معاشرہ کی بنیاد ہے، ان مسائل کی ابتداء ازدواجی تعلقات سے کی جا رہی ہے،اس سلسلہ میں پہلا حکم یہ دیا گیا ہے
نکاح:
(1) مشرک مردوعورت سے : مشرک مردوں اور عورتوں سے کسی صورت بھی نکاح جائز نہیں ۔ (۲۴۱)
(2) کتابی عورت سے : البتہ اہل کتاب عورت سے مسلمان مرد کا نکاح ہوسکتا ہےمگر بہتر یہی ہے کہ کتابیہ کے ساتھ نکاح کی بجائے کسی مسلمان عورت کے ساتھ نکاح کیا جائے ۔ 
(3) ازدواجی زندگی : حکم قرآنی سے یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسلام میں ازدواجی رشتہ کی بنیا خلق اور دین پر ہے ، حسب نسب یا غناء اور حسن و جمال پر نہیں کیونکہ یہ عارضی چیزیں ہیں نہ ہی یہ حقیقی سکون اور راحت کی ضامن ہیں اور نہ ہی سعادت کا سبب بنتی ہیں ۔ 
قیمتی خزانہ :البته ازدواجی زندگی کے سفر میں نیک اور خوف خدا رکھنے والا ساتھی،سفر کے بہت سارے مراحل کو آسان کر دیتا ہے، اسی لیے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک
خاتون کو قیمتی خزانہ سے تعبیر کیا ہے۔ (ترمذی)

(15) :حالت حیض اور جماع:حالت حیض میں بیوی کے ساتھ جماع جائز نہیں کیونکہ حیض کے خون میں اس کی نجاست اور اسے جراثیم پوشیدہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے میاں اور بیوی دونوں کی صحت خطرہ میں پڑ سکتی ہے 
  جائز ہے :البتہ آپس میں بوس و کنار، اٹھنے بیٹھنے اور  کھانے پینے کی اجازت ہے ۔ 
اجازت نہیں : جبکہ یہودی اس کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے کوئی برائی نہیں :اور نصاری حالت حیض میں جماع کرنا بھی برا نہیں سمجھتے تھے۔ 
اعتدال : گویا کہ اسلام نے دوسرے بہت سارے معاملات کی طرح حیض کے معاملہ میں بھی افراط و تفریط کی بجائے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔(222.223)

(16) قسم :اگر کسی شخص نے قسم کھالی کہ وہ چار ماہ تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جائے گا تو چار ماہ گزرنے پر خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی ۔ البتہ اگر اس نے رجوع کرلیا تو نکاح باقی رہے گا لیکن قسم کا کفارہ اس پر لازم ہو گا ۔ 

(17)طلاق : سورۃ البقرہ میں جتنی تفصیل کے ساتھ طلاق، عدت اور رضاعت کے مسائل بیان کیے گئے ہیں اتنی تفصیل کے ساتھ کسی دوسری سورت میں بیان نہیں کیے گئے ۔ اس سلسلہ میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ اللہ کی نظر میں طلاق  قابل نفرت ہونے کے با وجود مخصوص حالات اور مجبوریوں کی بناء پر طلاق کی اجازت دی گئی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات میاں بیوی میں سے کوئی ایک ایسا ہوتا ہے جو اپنی بد اخلاقی ، بد کرداری اور باغیانہ رویہ کی وجہ سے گھر کو جہنم بنادیتا ہے، جہاں سکون نام کو نہیں ہوتا ، ایسی صورت میں طلاق کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا، اسلام نے طلاق کی اجازت دینے کے ساتھ اس میں بہت ساری اصلاحات بھی کی ہیں ، زمانہ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھی ، سو سو طلاقیں دے کر بھی رجوع کرلیا کرتے تھے۔ اسلام تین سے زائد طلاق کی اجازت نہیں دیتا،ایک طلاق کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہے ، دو طلاقوں کے بعد بھی رجوع کیا جا سکتا ہے مگر تیسری طلاق کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ۔ (229)

(18)مہر :  شوہر نے مہر کی صورت میں بیوی کو جو کچھ دیا ہوا ہے واپس لینے کی اجازت نہیں ، البتہ خلع
کی صورت میں اجازت ہے خلع یہ ہے کہ عورت اس شرط پر پورا مہر یا اس کا کچھ حصہ  واپس دینے کے لیے
آمادہ ہو کہ اسے طلاق دے دی جائے خلع کے لیے زوجین کی  رضامندی ضروری ہے۔ (230)

(19)حلالہ :اگر طلاق یافتہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلے مگر کسی وجہ سے اس کے ساتھ بھی
نباہ نہ ہو سکے تو وہ اس سے طلاق لینے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے، اسے حلالہ کہا جاتا
ہے، آج کل حلالہ کے نام پر جو ڈرامہ کیا جاتا ہے اس کے کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر
حدیث میں لعنت کی گئی ہے۔ 
(20)رجوع : طلاق کے بعد عورت کومحض  اذیت سے دوچار کرنے کے لیے رجوع کرنا جائز نہیں ۔ (231)
 (21) رضاعت: چونکہ اسلام ، عدل اور احسان کا دین ہے جو کسی پر بھی ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔ خواہ بچہ ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت ، اس لیے اسلام نے دودھ پیتے بچوں کے حقوق بھی بیان کیے ہیں، آج
تو پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیا جارہا ہے کہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں مگر اسلام نے اس
وقت ماؤں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا حکم دیا تھا جب پوری دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی
ہوئی تھی اور ماں کے دودھ کی افادیت کسی کو معلوم نہ  تھی، اگر بالفرض میاں بیوی میں جدائی واقع
ہوجائے تو بھی دودھ پیتے بچے کی پرورش اور اسے دودھ پلانے کا زیادہ ماں ہی کو حاصل ہے۔
طلاق اور جدائی کی سزا اس معصوم کو دینا جائز نہیں ۔ (233)
(22)عدت : طلاق ہوجائے یا شوہر کی وفات کا سانحہ پیش آجائے دونوں صورتوں میں عورت پر عدت
لازم ہے، طلاق کی صورت میں عدت کی مدت تین حیض ہے  جبکہ عدت وفات چار ماہ دس دن ہے۔(228.234)
(23)زمنہ عدت میں پیغام نکاح :جو عورت زمانہ عدت میں ہو اس سے نکاح کے بارے میں عہد و پیمان لینا منع ہے۔ البته
دل میں خواہش رکھنے اور اشارہ کنایہ میں اپنی خواہش کے اظہار کی اجازت ہے۔ (235)
(24) جہاد :خاندان اور معاشرہ کی اصلاح اپنی جگہ بے حد اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کے لیے حق اورحق
کے انصار و اعوان کی بقا ضروری ہے، جہاد کا مقصدن حق اورحق کے علم برداروں کی بقا ہے ، اس لیے
قرآن کریم میں جہاد پر بڑا زور دیا گیا 

موت کے ڈر سے جہاد سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کی
شدید مذمت کی گئی ہے بعض مقامات پر اس حوالے سے ام سابقہ کے قصہ بھی بیان کیے گئے ہیں۔
یہاں دوسرے پارہ کے اختتام پر بھی دو قصے مذکور ہیں ۔ پہلا قصہ اسی قوم کا ہے جو طاعون کی پیاری
پھیل جانے کے بعد موت کے ڈر سے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی لیکن ہی فرار انہیں
موت سے نہ  بچا  سکا، اس قصہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی تد بیرانسان کو تقریر سے نہیں بچا سکتی۔
اور دوسرا قصہ بنی اسرائیل اور حضرت طالوت کا ہے جن کی قیادت میں جہادی صفات سے مالا
مال تھوڑے سے لشکر نے اپنے سے کئی گناہ بڑے لشکر کو شکست دے دی، یہ قصہ ایسا تھا کہ خود بنی
اسرائیل کے بھی صرف خواص ہی کے علم میں تھا، عوام اس سے بے خبر تھے ۔

 نبی امی صلی الله علیہ
وسلم کی زبان اقدس سے تاریخ کی اس بھولی بسری داستان کا بیان ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ
آپ کا رابطہ اس ذات سے ہے، جس کی نظر سے تاریخ کی کوئی کڑی بھی اوجھل نہیں
 اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں 
اس لیے اس قصہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے یہ اللہ تعالی کی آیتیں ہیں جو ہم
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں اور بلا شبہ آپصلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے رسولوں میں سے ہیں (252) (اور اسی  آیت پر دوسرے پارہ کا اختتام ہو جا تا ہے۔)



شیخ عا ئز القرنی کی کتاب : روزہ داروں کی تیس اسباق اس لنک سے حاصل کریں 
دوسرا روزہ دوسرا سبق : روزہ کی مشروعیت حکمتیں اور مصلحتیں

https://www.lajnatulmuallifeen.com/2019/05/rozah-ki-mashrooiyat-hikmatein-aor.html




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے